تہجد کی اذان کا حکم

تہجد کے لیے اذان دینا کیسا؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ تہجد کے لئےاذان دیناسنت سے ثابت ہے ؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں تہجد کے لئےاذان دی جاتی تھی، اگر دی جاتی تھی، تو کیا اب بھی تہجد کے لئےاذان دینا درست ہے؟ سائل: طفیل رضا(فیصل آباد)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

نماز پنجگانہ اور جمعہ کے علاوہ نمازوں، جیسے عیدین، وتر، سنن اور تہجد، وغیرہ نفل نمازوں کے لئے شریعت میں اذان و اقامت کا ثبوت نہیں، لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے۔نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حیاتِ ظاہری میں، صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین رِضْوَانُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْن کے زمانہ میں عیدین اور تہجد و دیگر نوافل کے لئےاذان نہیں دی جاتی تھی، یہی مسلمانوں میںمتوارثعمل ہے، اِسی پر فقہائے کرام کا اجماع ہے۔

جہاں تک نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حیاتِ ظاہری میں تہجد کے لئےباقاعدہ اذان نہ ہونے کا معاملہ ہے، تو احادیثِ طیبہ اور شارحینِ حدیث کے اقوال کے مطابق نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حیاتِ ظاہری میں بھی نمازِتہجد کے لئےاذان ہونا کسی بھی حدیث کے ظاہر سے ثابت نہیں، بلکہ اس باب کی احادیث کے تفصیلی مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حیاتِ ظاہری میں اذانِ فجر سے پہلے رات ہی کے آخری حصے میں جو ایک اذان ہوتی تھی وہ بنیادی طور پر نوافل یا تہجد کے لئے نہیں ہوتی تھی بلکہ اُس کا مقصد خود حدیث میں یہ بیان ہوا کہ "مُتَھَجِّدْ" یعنی تہجد ادا کرنے والا واپس لوٹ جائے اور کچھ دیر آرام کر کے تازہ دم ہو کر واپس نمازِ فجر کے لئے آئے، سحری کرنے والا سحری کر لے اور سونے والا اُٹھ جائے تاکہ غسل وغیرہ کی حاجت ہو، تو نمازِ فجر کی تیاری کر لے۔بعد میں دورِ صحابہ میں ہی یہ اذان ختم ہوچکی تھی(جیسا کہ تفصیل نیچےآرہی ہے)۔

نیز اس اذان کے تہجد کے لئےنہ ہونے کی ایک واضح دلیل یہ بھی ہے کہ فقہائے کرام کے درمیان ان دو اذانوں والی احادیث کی بنیاد پر اس بات کا اختلاف تو رہا ہےکہ اذانِ فجر وقت سے پہلے ہو سکتی ہے یا نہیں؟ لیکن اس بات میں کوئی اختلاف مذکور نہیں کہ تہجد کے لئےاذان دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس لئےکہ کسی بھی فقہیہ کا یہ موقف نہیں ہے۔

لہٰذا نہ تو عہدِ رسالت میں اذانِ تہجد ہوتی تھی اور نہ ہی اب یہ مسنون عمل ہے، بلکہ شرعاً ممنوع اور خلافِ سنت عمل ہے، نیز اگر اس میں وہ انداز اپنایا جائے، جو آج کل بڑے بڑے کان پھاڑ اسپیکروں میں اپنایا جاتا ہے، تو ایذاءِ مسلم، بہت سی حق تلفیوں اور شرعی خرابیوں کی وجہ سے حکم مزید سخت ہوجائےگا۔

نوافل و تہجد کے لئےاذان نہ ہونے کے متعلق جزئیاتِ فقہ:

نوافل کے لئے اذان دینے کی شرعی حیثیت کے متعلق کلام کرتے ہوئے شمس الاَئمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 483ھ / 1090ء) لکھتے ہیں:

 (وليس لغير الصلوات الخمس والجمعة أذان ولا إقامة)…وكذلك توارثه الناس إلى يومنا هذا

 ترجمہ: پانچوں نمازوں اور جمعہ کے علاوہ نمازوں کے لئےاذان و اقامت نہیں اور آج تک لوگوں میں یہی عمل چلتا آرہاہے۔(المبسوط، جلد1، صفحہ134، مطبوعہ دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان)

اسی طرح عامۂ کتبِ فقہ حنفیہ میں بھی یہی حکم موجود ہے كہ نوافل کے لئےاذان مشروع نہیں، چنانچہ اس مسئلہ کو علل کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے علامہ ابو المَعَالی بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 616ھ/1219ء) لکھتےہیں:

 وليس بغير الصلوات الخمس والجمعة والتطوعات والسنن والوتر، وغيرها ‌أذان ‌ولا ‌إقامة، أما السنن والتطوعات، فلأن الأذان والاقامة من سنّة الصلاة بالجماعة والسنن والتطوعات لا تؤدى بجماعة، فلا يشرع فيها ‌أذان ‌ولا ‌إقامة، ولأن الأذان شرع الاعلام للدخول بوقت الصلاة، ولا حاجة للتطوعات إلى ذلك

ترجمہ: پانچوں نمازوں اور جمعہ کے علاوہ نمازوں، سنن و نوافل اور وتر، وغیرہا کے لئےاذان و اقامت نہیں، بہر حال سنن و نوافل کی اذان اس لئے نہیں کہ اذان و اقامت نمازِ باجماعت کی سنت ہےاور سنن و نوافل بغیر جماعت کےادا کیے جاتے ہیں، لہٰذا ان میں اذان و اقامت مشروع ہی نہیں، نیز اس لئے بھی مشروع نہیں کہ اذان سے مقصود نماز کا وقت داخل ہونے کی اطلاع دینا ہوتا ہے، جبکہ نوافل کے لئےاس کی حاجت نہیں (کہ نوافل ممنوع اوقات کے علاوہ ہر وقت پڑھ سکتے ہیں)۔ (المحیط البرھانی، جلد1، صفحہ347، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)

ابو عمرامام ابن عبد البر مالکی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ(سال وفات: 463ھ )نے حضرت سیدنا بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی حدیث کے ضمن میں کلام کرتے ہوئے بلا تخصیص نوافل کے لیے اذان نہ ہونےپراجماعِ مسلمین بیان کیا، چنانچہ لکھتے ہی:

 وفي إجماع المسلمين على أن النافلة لا أذان لها

ترجمہ: اور مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ نفل نماز کے لئے اذان نہیں۔ (الاستذکار، جلد1، صفحہ405، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:

 اتفق الفقهاء على أنه لا يسن الاقامة لغير الصلوات الخمس والجمعة، فلا أذان ولا إقامة لصلاة الجنازة ولا للوتر ولا للنوافل ولا لصلاة العيدين وصلاة الكسوف والخسوف والاستسقاء

ترجمہ: مفہوم اوپر ذکر ہوچکا۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، جلد6، صفحہ14، مطبوعہ وزارتِ اوقاف، کویت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ/1947ء)لکھتے ہیں: فرض کے سوا باقی نمازوں مثلاً وتر، جنازہ، عیدین، نذر، سنن، رواتب، تراویح، استسقاء، چاشت، صوف، خشوع، نوافل میں اذان نہیں۔(بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 469، مکتبۃ المدینہ کراچی)

دورِ رسالت میں اذان ِتہجد نہ ہونے کے ثبوت پر جزئیات:

چنانچہ محی السنہ امام بغوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 516ھ)شرح السنۃ میں لکھتے ہیں:

ولا ‌أذان ‌ولا ‌إقامة لشيء من الصلوات سوى الفرائض الخمس، لأنه لم يؤذن على عهد رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم لغيرها

ترجمہ: پانچ فرض نمازوں(اور جمعہ) کے علاوہ کسی بھی نماز کے  لئے اذان و اقامت نہیں، کیونکہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حیاتِ ظاہری میں ان کے علاوہ کسی نماز کے لئےاذان نہیں دی گئی۔ (شرح السنة للبغوي، جلد2، صفحہ311، مطبوعہ المکتب الاسلامی، بیروت)

صحابہ کرام اور ان کے بعد اہل علم تابعین و تبع تابعین رِضْوَانُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْن کا بھی یہی معمول تھا، چنانچہ امام ترمذی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 279ھ/892ء) لکھتےہیں:

 والعمل عليه عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى اللہ عليه وسلم وغيرهم أنه: لا يؤذن لصلاة العيدين ولا لشيء من النوافل

ترجمہ: نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ کرام ان کے بعد اہلِ علم کا اسی پرعمل رہا کہ عیدین اور کسی بھی نفل نماز کےلئےاذان نہیں دی جاتی تھی۔ (سننِ ترمذی، جلد1، صفحہ232، مطبوعہ لاھور)

نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حیاتِ ظاہری میں فجر سے پہلے دی جانے والی اذان نمازِ تہجد کے مقصد سے نہیں دی جاتی تھی، بلکہ اس اذان کے دیگر مقاصد ہوتے تھے، چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے:

 عن ‌عبد اللہ بن مسعود، عن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال: لا يمنعن أحدكم، أو أحدا منكم، أذان بلال من سحوره، فإنه يؤذن، أو ينادي بليل، ليرجع قائمكم، ولينبه نائمكم

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کسی کو بلال کی اذان سحری سے نہ روکے، کیونکہ وہ رات (طلوعِ فجر سےپہلے) اذان دیتے ہیں، تاکہ نماز میں قیام کرنے والا واپس لوٹ جائے اور تم میں سونےوالا جاگ جائے۔(صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب الأذان قبل الفجر، جلد1، صفحہ155، مطبوعہ لاہور)

اس اذان سے اصل مقصود نمازِ فجر کے  لئے بیدار کرنا ہوتا تھا، کیونکہ یہ اذان بالکل فجر کے وقت کے قریب قریب ہوتی تھی، تاکہ سحری کرنے والا سحری مکمل کرلے، یا اگر کسی کو غسل کی حاجت ہو، تو وہ غسل کر لے، الغرض نماز کی تیاری سے متعلقہ کاموں کو سر انجام دے سکے، البتہ ضمناًیہ فائدہ بھی حاصل ہوجاتا کہ اگر کوئی تہجدپڑھنا چاہے، تو وہ مختصر نماز ادا کر لیتا، چنانچہ ان مقاصد کو بالتفصیل ذکر کرتے ہوئے علامہ عینی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ اور علامہ ابن رسلان عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ اور دیگر شارحینِ حدیث نے لکھا،

واللفظ للثانی: ”ومعناه: أنه إنما يؤذن بليل ليعلمكم أن الفجر ليس ببعيد فهو يؤذن ليرد القائم المتهجد إلى راحته لينام غفوة فتنشط نفسه فيصبح نشيطا لصلاة الصبح، أو يوتر إن لم يكن أوتر، أو يتأهب للصبح إن احتاج إلى طهارة أخرى، ونحو ذلك من المصالح المترتبة على علمه بقرب الصبح، هذا فيمن هو قائم أو مستيقظ(وينبه نائمَكم) أي: ينبه المؤذن من استولى النوم [عليه] ليتأهب للصبح أيضًا فيفعل ما أراده من تهجد قليل أو إيتار إن لم يكن أوتر، أو تسحر إن كان عزم على الصوم، أو يغتسل قبل الفجر إن كان جنبًا، أو غير ذلك مما يحتاجه قبل الفجر“

 ترجمہ: عبارت کا مفہوم اوپر تمہید میں بیان ہو چکا۔(شرح سنن أبي داود لابن رسلان، جلد10، صفحہ333، 334، مطبوعہ دار الفلاح، مصر)

اسی حدیث پاک کی شرح میں شارحِ بخاری محدث کبیر شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں: ”امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد کے علماء کا عمل یہ تھا کہ عیدین کی نماز اور کسی نفل کے لئے اذان نہیں تھی۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نداء نماز کے لئےنہ تھی، بلکہ سونے والے کو بیدار کرنے اور تہجد پڑھنے والے کو گھر واپس لوٹانے کے لئے تھی۔۔۔(مزیددلائل اور کلام کرنے کے بعد لکھتے ہیں) حدیث شریف کے ظاہرِ الفاظ کا مدلول یہ ہرگز ہرگز نہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان تہجد کے لئے تھی، لہذا موجودہ زمانہ میں بعض لوگوں کا تہجد کے لئے اذان دینا ظا ہرِ حدیث کے خلاف ہے اس کی کوئی اصل نہیں۔ہاں علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ صبح صادق سے پہلے اگر اذان دی جائے تو صبح کی نماز کے لئے کافی ہے یا نہیں ؟۔“ (تفہیم البخاری، جلد1، صفحہ975، تفہیم البخاری پبلی کیشنز، فیصل آباد )

یونہی سحری و تہجد کے لیے اذان کے مسنون نہ ہونے کےمتعلق تفصیلی کلام کرتے ہوئے شیخ الحدیث علامہ سید محمود احمد رضوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے لکھا۔ (فیوض الباری شرح البخاری، جلد2، ص313، مطبوعہ نشان منزل)

زمانہ نبوی میں فجرسے پہلے ہونے والی اذان بعد میں ختم ہو گئی تھی، چنانچہ مجتہد فی المسائل ابو جعفر علامہ اَحمد بن محمد طحاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ(وِصال: 321ھ/933ء)اس باب میں مذکور دونوں طرح کی احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

”عن إبراهيم، قال: شيعنا علقمة إلى مكة، فخرج بليل فسمع مؤذنا يؤذن بليل فقال: «أما هذا فقد خالف سنة أصحاب رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، لو كان نائما كان خيرا له فإذا طلع الفجر، أذن» فأخبر علقمة أن التأذين قبل طلوع الفجر، خلاف لسنة أصحاب رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم

 ترجمہ: حضرت ابراہیم رحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت علقمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو مکہ مکرمہ کی طرف الوداع کیا، آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ رات کو نکلے، تو ایک مؤذن کو رات کے وقت اذان دیتے ہوئے سنا، فرمایا: اِس شخص نے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ کرام کی مخالفت کی ہے۔اگر یہ سویا رہتا، تو اچھا تھا، صبح ہوتی، تو اذان کہتا۔حضرت علقمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے بتایا کہ طلوعِ فجر سے پہلے اذان کہنا صحابہ کرام کے طریقے کے خلاف ہے۔ (شرح معانی الآثار، جلد01، صفحہ 97، مطبوعہ لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Fsd-9471

تاریخ اجراء: 27صفر المظفر1447ھ /22 اگست  2025ء