
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
امام صاحب پہلی رکعت کے رکوع میں تھے، زید آیا اور "اللہ اکبر" کہتا ہوا رکوع میں چلا گیا، ایک مرتبہ "سبحان اللہ" کہنے کی مقدار بھی نہیں رکا، تو کیا اس صورت میں زید کی نماز ہوئی یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(۱) صحیح مسئلہ یہ ہے کہ: امام کورکوع میں پانے والاشخص تکبیر تحریمہ کہنے اور رکوع میں پہنچنے تک جس قدر قیام کرتا ہے، وہی اسے کفایت کرتاہے، اگرچہ تکبیر کہنے کے بعد بغیر رکے، فورا رکوع میں چلا جائے؛ کیونکہ اس پرتکبیرکہنے کے بعدکچھ دیر ٹھہرنا لازم نہیں ہے، لہذا صورت مسئولہ میں زید کی نماز ہو جائے گی بشرطیکہ اس نے تکبیر تحریمہ کھڑے کھڑے کہی ہو یعنی رکوع کا ادنی درجہ (کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنوں تک پہنچ جائیں) حاصل ہونے سے پہلے تکبیر پوری کر لی ہو، کیونکہ تکبیرتحریمہ کارکوع میں جانے سے پہلے ختم ہوناضروری ہے۔
البتہ !ایسی صورت میں ہونایہ چاہیے کہ تکبیرتحریمہ کے بعد، رکوع میں جانے کے لیے رکوع کی تکبیر بھی کہے، جبکہ صورت مسئولہ میں زید سے تکبیر رکوع فوت ہوئی جو کہ مکروہ ہے؛ اس لیے کہ تکبیر رکوع کہنا نماز کی سنتوں میں سے ہے۔
رئیس العلما علامہ محمد عابد بن احمد سندھی مدنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1257ھ/1841ء) لکھتے ہیں:
”ولو كبر قائما فركع ولم يقف صح لأن ما أتى به من القيام إلى أن يبلغ الركوع يكفيه يعني فصار مؤديا فرض التكبير والقيام جميعا فلا يلزم بعده الوقوف قائما، هذا يحمل علي من لا قراءۃ عليه“
ترجمہ: اور اگر کسی نے کھڑے کھڑے تکبیر کہی پھر بغیر ٹھہرے رکوع میں چلا گیا تو یہ صحیح ہے؛ کیونکہ جو قیام اس نے رکوع میں پہنچنے تک کیا، وہ اسے کفایت کرے گا، یعنی (تکبیر تحریمہ کہتے ہی) وہ تکبیر اور قیام دونوں کا فرض ادا کرنے والا ہو گیا، پس اس کے بعد بحالت قیام ٹھہرنا لازم نہیں، یہ حکم اس شخص پر محمول ہے جس پر قرات لازم نہ ہو۔ (طوالع الأنوار شرح الدر المختار، جلد1، صفحه 576، مخطوطه)
عمدۃ المحققین علامہ علاؤ الدین محمد بن علی حصکفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں:
(ما بين القوسين عبارة رد المحتار)" فلو وجد الإمام راكعا فكبر منحنيا، إن إلى القيام أقرب (بأن لا تنال يداه ركبتيه) صح"
ترجمہ: پس اگر کسی نے امام کو رکوع کی حالت میں پایا اور تکبیر جھکتے ہوئے کہی، تو اگر وہ قیام کے زیادہ قریب ہو بایں طور کہ اس کے ہاتھ گھٹنوں تک نہ پہنچتے ہوں تو (اس کی نماز کی ابتدا) صحیح ہو گی۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد1، صفحہ 480، مطبوعہ : بیروت )
علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 855ھ/1451ء) لکھتے ہیں:
”ولو وقع "الله" قبل ركوعه، و "أكبر" في ركوعه، لا يصير شارعا“
ترجمہ: اور اگر لفظِ الله رکوع سے پہلے اور لفظِ اكبر رکوع کی حالت میں واقع ہوا تو وہ نماز شروع کرنے والا نہیں ہوگا۔ (البنایة شرح الهدایة، جلد 2، صفحہ 176، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
علامہ بدر الدین ابو محمدمحمود بن احمد عینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 855ھ/1451ء) لکھتے ہیں:
”تكبيرة الركوع وتكبيرة النهوض ليستا من صلب الصلاة؛ لأنه لو تركها تارك لم تفسد عليه صلاته وهما من سننها“
ترجمہ: رکوع کی تکبیر اور اٹھنے کی تکبیر (یعنی تسمیع) اصلِ نماز سے نہیں ہیں؛ کیونکہ اگر کوئی شخص انہیں چھوڑ دے تو اس کی نماز اس پر فاسد نہیں ہوتی، (بلکہ) یہ نماز کی سنتوں میں سے ہیں۔ (نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار، جلد 4، صفحہ 198، مطبوعہ قطر)
امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”(مسبوق) فقط تکبیر تحریمہ کہہ کر رکوع میں مل جائے گا تو نماز ہو جائے گی، مگر سنت یعنی تکبیر رکوع فوت ہوئی، لہذا یہ چاہیے کہ سیدھا کھڑا ہونے کی حالت میں تکبیر تحریمہ کہے اور "سبحٰنک اللّٰھم" پڑھنے کی فرصت نہ ہو یعنی احتمال ہو کہ امام جب تک سر اٹھا لے گا، تو معاً دوسری تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور امام کا حال معلوم ہو کہ رکوع میں دیر کرتا ہے، "سبحٰنک اللّٰھم" پڑھ کر بھی شامل ہو جاؤں گا تو پڑھ کر رکوع کی تکبیر کہتا ہوا شامل ہو، یہ سنت ہے، اور تکبیر تحریمہ کھڑے ہونے کی حالت میں کہنی تو فرض ہے، بعض ناواقف جو یہ کرتے ہیں کہ امام رکوع میں ہے، تکبیر تحریمہ جھکتے ہوئے کہی اور شامل ہو گئے، اگر اتنا جھکنے سے پہلے کہ ہاتھ پھیلائیں تو گھٹنے تک پہنچ جائیں، "اللہ اکبر" ختم نہ کر لیا تو نماز نہ ہوگی، اس کا خیال لازم ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 235، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4211
تاریخ اجراء: 16ربیع الاول1447 ھ/10ستمبر 2520 ء