
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر دو امام صاحبان تروایح پڑھائیں تو اس میں کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے؟ کیونکہ بعض جگہ پر ایک امام صاحب دس رکعت تروایح پڑھاتے ہیں، پھر بقیہ دس رکعت تروایح دوسرے امام صاحب پڑھاتے ہیں۔ کیا اس طرح کرنا، درست ہے؟شرعی رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
افضل طریقہ یہی ہے کہ ایک امام صاحب کے پیچھے مکمل 20 رکعت تروایح ادا کی جائے، البتہ اگر دو امام صاحبان مل کر تروایح پڑھانا چاہیں، توا س میں مستحب طریقہ یہ ہے کہ ایک مکمل ترویحہ(یعنی چار رکعت تروایح) پڑھانے کے بعد، دوسرے امام صاحب بقیہ تروایح کی رکعات پڑھائیں۔ مثلا ایک امام صاحب 8 رکعتیں پڑھائیں اور دوسرے امام صاحب 12 رکعتیں پڑھائیں۔ دس رکعات تروایح ایک امام صاحب پڑھائیں، بقیہ دس رکعات تراویح دوسرے امام صاحب پڑھائیں یہ کرنا، جائز تو ہے البتہ مستحب و بہتر طریقہ وہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔
تروایح ایک امام صاحب کے پیچھے پڑھنا افضل ہے اور اگر دوامام صاحبان تروایح پڑھائیں تو اس کے مستحب طریقہ سے متعلق فتاوی ہندیہ میں ہے:
”والأفضل أن يصلي التراويح بإمام واحد فإن صلوها بإمامين فالمستحب أن يكون انصراف كل واحد على كمال الترويحة فإن انصرف على تسليمة لا يستحب ذلك في الصحيح“
ترجمہ: افضل یہ ہے کہ ایک امام کے پیچھے مکمل تراویح پڑھی جائے، اگر دو امام کے پیچھے، تروایح پڑھنی ہو تو مستحب طریقہ یہ ہے کہ مکمل ترویحہ پر امام کو تبدیل کیا جائے۔ صحیح قول کے مطابق ایک سلام (کی دو رکعت پر)پر امام تبدیل کرنا پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ (فتاوی ہندیہ، جلد1، صفحہ 116، مطبوعہ کوئٹہ)
الجوہرۃ النیرہ میں ہے:
”والأفضل أن يصلي التراويح بإمام واحد لأن عمر رضي اللہ عنه جمع الناس على قارئ واحد وهو أبي بن كعب رضي اللہ عنہ“
ترجمہ: افضل یہ ہے کہ تروایح ایک امام صاحب کے پیچھے پڑھی جائے، کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہی قاری حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے لوگوں کو اکٹھا کیاتھا۔ (الجوھرۃ النیرۃ، جلد1، صفحہ 98، مطبوعہ المطبعة الخيرية)
فتاوی قاضی خان میں ہے:
”لو اقاموا التراویح بامامین فصلی کل امام تسلیمۃ، بعضھم جوزوا ذلک والصحیح انہ لایستحب و انما یستحب ان یصلی کل امام ترویحۃ لیکون موافقا عمل اھل الحرمین“
ترجمہ: اگر لوگوں نے دو اماموں کے پیچھے تروایح اس طرح پڑھی کہ ہر امام ایک سلام کے بعدتبدیل ہوجاتا ہے، تو بعض فقہاء کرام علیھم الرحمہ نے اس کو جائز قرار دیا، لیکن صحیح یہ ہے کہ ایسا کرنا، اچھا عمل نہیں۔ مستحب طریقہ یہ ہے کہ ہر امام ایک ترویحہ پڑھائے تاکہ یہ اہل حرمین کے عمل کے موافق ہو جائے۔ (فتاوی قاضی خان، جلد1، صفحہ205، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ” افضل یہ ہے کہ ایک امام کے پیچھے تراویح پڑھیں اور دو کے پیچھے پڑھنا چاہیں تو بہتر یہ ہے کہ پورے ترویحہ پر امام بدلیں، مثلاً آٹھ ایک کے پیچھے اور بارہ دوسرے کے۔ “ (بہار شریعت، جلد1، صفحہ692، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”میں 74ء میں حرمین شریفین کی زیارت سے رمضان شریف میں ہی مشرف ہوا۔ میں نے دیکھا کہ دونوں جگہ تروایح بیس رکعت ہی ہو رہی ہیں۔ البتہ دو امام پڑھاتے ہیں ایک آٹھ رکعت اور دوسرا 12 رکعت۔ “ (فتاوی بحر العلوم، جلد 1، صفحہ 478، مطبوعہ شبیر برادرز، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Gul-3431
تاریخ اجراء: 20رمضان المبارک 1446 ھ/ 21مارچ 2025ء