دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی نے تشہد میں
أَشْهَدُ أَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ
کے بعد
وَحْدَہٗلَا شَرِيكَ لَهُ
کا اضافہ کیا اور پھر سجدہ سہو کئے بغیر نماز مکمل کر لی، تو اس صورت میں نماز کا کیا حکم ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگر کسی نے تشہدیعنی التحیات میں
اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ
کے بعد
وَحْدَہٗلَا شَرِيكَ لَهُ
کا اضافہ کیا، تو اس کی نماز ادا ہو جائے گی اور سجدہ سہو بھی واجب نہیں ہوگا، البتہ جان بوجھ ان الفاظ کا اضافہ کرنے سے بچنا چاہئے۔
اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ صحا بہ کرام علہیم الرضوان سےمختلف الفاظ کےساتھ کئی تشہدات منقول ہیں اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی تشہد (جو ہمارے ہاں معروف ہے، اس) میں
وَحْدَہٗلَا شَرِيكَ لَهُ
کے الفاظ منقول نہیں، جبکہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہما سے مروی تشہد میں
وَحْدَہٗ لَا شَرِيكَ لَهُ
کے الفاظ منقول ہیں اورمروی تشہدات میں سے کوئی بھی تشہد پڑ ھ لینے سے تشہد کا واجب ادا ہوجاتا ہے، ان میں سے کوئی خاص تشہد پڑھنا واجب نہیں۔ اس کی نظیر دعائے قنوت ہے، کہ وتر میں دعائے قنوت پڑھنا واجب ہے، لیکن خاص معروف دعائے قنوت پڑھنا واجب نہیں، بلکہ کوئی بھی دعائے ماثورہ پڑھنے سے قنوت کا واجب ادا ہوجاتا ہے، اسی طرح کوئی بھی مروی تشہد پڑھ لینے سے تشہد کا واجب بھی ادا ہوجائے گا۔ البتہ احناف کے نزدیک حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی تشہدپڑھنا مستحب اور افضل ہے، کیونکہ یہ سند کے اعتبار سے دوسرے تشہدات سے قوی ہے، لہذا جان بوجھ اس پرمزید الفاظ کا اضافہ نہیں کرنا چاہئے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی تشہد میں
وحدہ لاشریک لہ
کے الفاظ منقول نہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری، ابن ماجہ، مصنف ابن ابی شیبہ اور سنن الترمذی میں یوں الفاظ منقول ہیں:
و اللفظ للاخر: التحيات للہ و الصلوات و الطيبات، السلام عليك أيها النبي و رحمةاللہ و بركاته، السلام علينا و على عباد اللہ الصالحين، أشهد أن لا إله إلا اللہُ و أشهد أن محمدا عبده و رسوله
ترجمہ: تمام قولی، فعلی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور سلام ہو آپ پر اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ (سنن الترمذی، باب ما جاء في التشهد، حدیث 288، ج 1، ص 343، الناشر: دار الرسالة العالمية)
صحیح ابن حبان میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے تشہد ابن مسعود کی مثل ہی تشہد مروی ہے، البتہ اس میں
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ
کے بعد
وحدہ لا شریک لہ
کے الفاظ ہیں:
فقال: قولوا: ”التحيات لله و الصلوات و الطيبات، السلام عليك أيها النبي و رحمةاللہ و بركاته، السلام علينا و على عباد اللہ الصالحين، أشهد أن لا إله إلا اللہُ وحده لا شريك له و أشهد أن محمدا عبده و رسوله“ (صحیح ابن حبان، جلد 14، صفحہ 312، موسسۃ الرسالۃ بیروت)
اور اسی طرح المعجم الکبیر للطبرانی میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی تشہد کے کلمات بعینہ اسی طرح مروی ہیں، جس طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تشہد ہے، البتہ اس میں
اشھد ان لا الہ الا اللہ
کے بعد
وحدہ لا شریک لہ
کے الفاظ ہیں۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، جلد 6، صفحہ 264، القاهرة)
اسی طرح سنن ابی داود میں حطان بن عبد اللہ رقاشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
في التشهد بعد أشهد أن لا إله إلااللہُ زاد ’’وحده لا شريك له‘‘
ترجمہ:انہوں نے تشہد میں
اشھد ان لا الہ الااللہ
کے بعد
وحدہ لا شریک لہ
کا اضافہ کیا۔ (سنن ابی داود، باب التشھد، جلد 2، صفحہ 222، الناشر: دار الرسالة العالمية)
تمام تشہدات کا پڑھنا جائز ہے، البتہ تشہد ابن مسعود سب سے اصح ہے۔ چنانچہ المنہاج شرح صحيح مسلم، فتح الباری شرح صحيح البخاری اور مرقاة المفاتيح میں ہے:
فإن رواية ابن مسعود أصح و لهذا اختاره أبو حنيفة و أحمد و جمهور الفقهاء و المحدثين۔۔۔ و الظاهر أن الخلاف في الأفضل والجواز بالكل
ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت اصح ہے، اسی وجہ سے امام اعظم اور امام احمد اور جمہور فقہاء و محدثین رضی اللہ عنہم نے اس کو اختیار کیا ۔۔۔ اور ظاہر یہ ہےکہ تشہدادت میں اختلاف افضل ہونے میں ہے اور تمام کا پڑھنا جائز ہے۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، جلد 02، صفحہ 733، الناشر: دار الفكر، بيروت، ملتقطا)
اسی طرح شرح سنن ابی داود میں ہے:
و قال النووي: أشدها صحة باتفاق المحدثين حديث ابن مسعود، ثم حديث ابن عباس
ترجمہ: امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: محدثین کے اتفاق کے ساتھ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث صحت کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے، پھر اس کے بعد ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث ہے۔ (شرح سنن أبي داود، ج 04، ص 240، الناشر: مكتبة الرشد، الرياض)
خاص تشہدِ ابن مسعودپڑھنا واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے۔ چنانچہ حاشیۃ الطحطاوی على مراقی الفلاح شرح نور الايضاح میں ہے:
قوله: و قرأ التشهد المتقدم، أي تشهد ابن مسعود وتعيينه مستحب
ترجمہ: اور ان کا قول کہ سابقہ تشہد پڑھے،یعنی تشہد ابن مسعود اور اس کی تعیین مستحب ہے۔ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، جلد 01، صفحہ 285، الناشر: دار الكتب العلمية بيروت)
نیز اکثر فقہائے کرام نے تشہد کے باب میں اس بات کا ذکر کیا کہ تمام تشہدات میں اولیٰ وافضل ہونے میں اختلاف ہے اور احناف کے نزدیک تشہدِ ابن مسعود اولیٰ ہے، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی خاص تشہد پڑھنا واجب نہیں، بلکہ کوئی بھی پڑھ لینے سے تشہد کا واجب ادا ہوجائے گا۔ چنانچہ المبسوط للسرخسی،فتاوی ہندیہ، بدائع الصنائع، البنایۃ شرح الہدایۃ اور الاختيار لتعليل المختار میں ہے:
و الأخذ به أولى من رواية غيره ،لأن أخذه بيده و أمره يدل على زيادة التأكيد
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کو دوسروں کی روایت پر ترجیح دینا اولیٰ ہے، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ان کا ہاتھ پکڑنا اور انہیں (تشہد کے الفاظ) سکھانے کا حکم دینا زیادتیِ تاکید پر دلالت کرتا ہے۔ (الاختيار لتعليل المختار، جلد 01، صفحہ 53، الناشر: مطبعة الحلبي، القاهرة)
طوالع الانوار میں ہے:
قال السید احمد: فنظیرہ دعاء القنوت فانہ واجب و تخصیصہ بالمشہور سنۃ و قال ابن ابی جمرۃ: و اما قولنا ھل یجزی خلاف ھذہ الصیغۃ؟ فاعلم انہ لا یجزی الا ما جاء فیہ من اختلاف بعض الفاظھا و ذکر الروایات فی التشھد، ثم قال:۔۔با ی تشہد اجزء بلا خلاف اعرفہ بین العلماء خلفا عن السلف انتھی و قد جوز الشیخ علی القاری فی شرح حصن الحصین بکل وارد فی التشھد و لفظہ و لا خلاف فی جواز الفاظ التشھد جمیعا، انما الخلاف فی الافضل و لا شک ان کلما ورد عنہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم من طریق اصح فھو اولی بالعمل انتھی، فعلم مما ذکر انہ لو زید فی تشھد ابن مسعود من الکلمات الزائدة الواردة فی غیر تشهدہ لم یخل بالجواز و انما ترک الافضل
ترجمہ: سید احمد طحطاوی نے (طحطاوی علی الدر میں) فرمایا: اس کی نظیر (یعنی تشہد کے واجب ہونے اور تشہد ابن مسعود کے دیگر مروی تشہدات سے افضل ہونے کی نظیر) دعائے قنوت ہے، کہ کوئی سی دعا پڑھ لینے سے واجب ادا ہو جائے گا اور اس کی مشہور کے ساتھ تخصیص سنت ہے۔ اور ابن ابی جمرۃ نے فرمایا: کیا مروی تشہدات کے خلاف کلمات پڑھنا جائز ہے؟ پس تو جان کہ یہ جائز نہیں سوائے ان بعض مختلف کلماتِ تشہد کے، جو تشہد کی روایات میں مذکور ہوئے۔ مروی تشہد میں سے کوئی بھی پڑھ لیا جائے، تو بغیر کسی ایسے اختلاف کے جائز ہے، جو سلف سے خلف تک کے علما کے درمیان میں جانتا ہوں۔ اور تحقیق علامہ علی قاری نے حصن الحصین کی شرح میں تشہد میں (مختلف تشہدات میں) مروی ہر کلمہ پڑھنا جائز قرار دیا، ان کے الفاظ یہ ہیں: تمام الفاظِ تشہد کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اختلاف تو صرف افضلیت میں ہے اور کوئی شک نہیں کہ جو بھی نبی صلی اللہ تعالی علیہ و سلم سے بطریق اصح مروی ہوا، اس پر عمل کرنا اولیٰ ہے ۔ پس ذکر کردہ سے معلوم ہوا کہ اگر دیگر صحابہ سے روایت کردہ تشہد کے کلمات میں سے کچھ حضرت عبد اللہ بن مسعود کی تشہد میں زیادہ کر لئے، تو یہ جواز میں مخل نہیں، مگر اس نے افضل کو ترک کیا۔ (طوالع الانوار، ج 1، ص 434، مخطوط مکتبة مکۃ المکرمۃ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: GUJ-0039
تاریخ اجراء: 01 ربیع الثانی 1447ھ/ 25 ستمبر 2025ء