
دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں کہ امام صاحب نمازِ فجر پڑھا رہے تھے،دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے، تو سورت فاتحہ پڑھنا بھول گئے اورفاتحہ کے علاوہ قراءت شروع کر دی، انہیں سورت فاتحہ یاد نہیں آئی اور کسی مقتدی نے بتایا بھی نہیں حتی کہ انہوں نے یوں ہی رکوع و سجود کر کےسجدہ سہو کئے بغیر نماز مکمل کر لی، بعد میں انہیں بتایا گیا کہ سورت فاتحہ نہیں پڑھی گئی، تو انہوں نے نمازیوں کو کہا کہ نماز دوبارہ پڑھی جائے گی، توامام صاحب نے دوبارہ جماعت کروائی، بعض ایسے افراد بھی تھے، جو پہلے والی جماعت میں شریک نہیں ہو سکے تھے، لیکن وہ دوسری جماعت میں شریک ہوئے اور اپنی فرض نماز ادا کی۔ اس حوالے سے ارشاد فرما دیجئے کہ اُن مقتدیوں کی نماز کا کیا حکم ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں دوسری جماعت میں نئے شریک ہونے والے مقتدیوں کی اقتداء درست نہ ہوئی، لہٰذا ان پرفرض و لازم ہے کہ اپنی نماز دوبارہ سے پڑھیں۔ مسئلہ کی تفصیل جاننے سے قبل تمہیداً دو باتیں ذہن نشین فرما لیجئے:
(1) فرض کی پہلی، دوسری رکعت میں اور باقی تمام نمازوں کی ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنا، نیز فاتحہ کا سورت ملانے سے پہلے ہونا واجب ہے، اگر فاتحہ کی بجائے بھولے سے کوئی اور سورت پڑھ دی نیز سجدے میں جانے تک سورت فاتحہ یاد نہ آئی، تو آخر میں سجدہ سہوکرنے کا حکم ہے اور جہاں سجدہ سہو کا حکم ہو، وہاں اگر سجدہ سہو نہ کیا، تو نماز واجب الاعادہ ہوتی ہے یعنی فرض تو ادا ہو جاتے ہیں، لیکن ترکِ واجب کی وجہ سے جو کمی واقع ہوئی تھی، اُس کے تدارُک (تلافی) کے لیے نماز دوبارہ پڑھنا واجب ہوتی ہے۔
(2) اقتداء کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ امام اور مقتدی کی نماز میں باہم ربط و تعلق ہو، اس ربط کی وضاحت فقہائے کرام یوں بیان فرماتے ہیں کہ امام کی نماز مقتدی کی نماز کو ضمن میں لیے ہوئے ہو یعنی امام اور مقتدی کی نماز متحد ہو یا امام کی نماز مقتدی کی نماز سے اوپر درجے کی ہو، لیکن اگرمقتدی کی نماز امام سے اعلیٰ درجے کی ہو جیسے مقتدی فرض نماز پڑھ رہا ہو اور امام صاحب سنت، نفل یا فرض سے نیچے درجے کی کوئی نماز ادا کر رہے ہوں، تو اُس کی اقتداء درست نہیں ہو گی اور اُسے اپنی نماز دوبارہ پڑھنالازم ہو گی۔
اس تمہید کے بعد سوال کا جواب واضح ہو گیا اور وہ یہ ہے کہ پوچھی گئی صورت میں امام صاحب کےفرض ادا ہو چکے تھے، لیکن ترکِ واجب کی وجہ سے نماز کا اعادہ واجب قرار پایا تھا، توامام صاحب کی یہ نماز، فرض نماز نہیں تھی، بلکہ اس سے نیچے درجے کی نماز تھی،جبکہ جو ابتدائی طور پر نئے مقتدی شریک ہوئے، اُن کی نماز فرض نماز تھی، تو یہاں اقتداء کی ایک شرط مفقود ہونے (نہ پائے جانے) کی وجہ سے اُن نمازیوں کی اقتداء درست نہیں ہوئی، لہٰذا انہیں اپنی نماز دوبارہ پڑھنا فرض و لازم ہے۔
اوپر بیان کردہ مسائل کے دلائل بالترتیب درج ذیل ہیں:
فرض کی پہلی، دوسری رکعت اور باقی نمازوں کی تمام رکعتوں میں سورت فاتحہ پڑھناواجب ہے۔ چنانچہ تنویر الابصار مع الدر میں واجباتِ نماز کےبیان میں ہے:
(قراءۃ فاتحۃ الکتاب فی الاولیین من الفرض و) فی جمیع رکعات (النفل و) کل (الوتر)
ترجمہ: فرض کی پہلی دو رکعتوں، نفل اور وتر کی تمام رکعتوں میں سورت فاتحہ پڑھنا ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 2، ص 184، 188، مطبوعہ کوئٹہ)
طحطاوی علی المراقی میں ہے:
و من الواجب تقدیم الفاتحۃ علی السورۃ وان لا یوخر السورۃ عنھا بمقدار اداء رکن فلو بدأبآیۃ من السورۃ ثم تذکر الفاتحۃ یقرءھا و یعید السورۃ و یسجد للسھو لتاخیر الواجب عن محلہ
ترجمہ: فاتحہ کو سورت پر مقدم کرنا اور سورت کو فاتحہ سےادائےرکن کی مقدار مؤخر نہ کرنا واجب ہے، تو اگر سورت کی ایک آیت کے ساتھ ابتدا کر دی، پھر فاتحہ یاد آئی، تو فاتحہ پڑھے، پھر سورت پڑھ کر سجدہ سہو کرے، واجب کو اپنے محل سے مؤخر کرنے کی وجہ سے۔ (حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح، ص 460، مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے: ’’نماز فرض میں دو پہلی رکعتوں میں قراءت واجب ہے۔ الحمد اور اس کے ساتھ سورت ملانا فرض کی دو پہلی رکعتوں میں اور نفل و وتر کی ہر رکعت میں واجب ہے۔ الحمد کا سورت سے پہلے ہونا (بھی واجب ہے)۔“ (بھار شریعت، ج 1، حصہ 3، ص 517، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
سورت فاتحہ پڑھنا یاد نہ رہی اور سجدے میں جانے تک یاد نہ آیا، توآخر میں سجدہ سہو کا حکم ہو گا۔ چنانچہ امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سےسوال ہوا،جس کا خلاصہ یہ ہے: ’’زید نے نماز پڑھی اور فقط
الحمدﷲ رب العٰلمین
پڑھ کر بھول گیا، (واجب قراءت پوری کیےبغیر) رکوع و سجود کیا اور سجدہ سہو کرکےسلام پھیردیا، اس حالت میں زید کی نماز ہوئی یا نہیں؟‘‘ تو امامِ اہلسنت علیہ الرحمۃ نے جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ہاں! اگر ایسا بھُولا کہ نہ بقیہ فاتحہ یاد آتا ہے، نہ قرآن عظیم سے کہیں کی آیتیں اور نا چار رکوع کردیا اور سجدے میں جانے تک فاتحہ وآیات یاد نہ آئیں، تو اب سجدہ سہو کافی ہے اور اگر سجدہ کو جانے سے پہلے رکوع میں خواہ قومہ بعد الرکوع میں یاد آجائیں تو واجب ہے کہ قراءت پوری کرے اور رکوع کا پھر اعادہ کرے، اگر قراءت پوری نہ کی تواب پھر قصداً ترکِ واجب ہوگا اور نماز کا اعادہ کرنا پڑے گا اور اگر قراءت بعدا لرکوع پوری کرلی اور رکوع دوبارہ نہ کیا، تو نماز ہی جاتی رہی کہ فرض ترک ہوا۔
و ذلک لان الرکوع یر تفض بالعود الی القراءۃ لانھا فریضۃ و کل ما یقرأ ولوالقراٰن العظیم کلہ فانما یقع فرضا کما نصوا علیہ
اس لیے کہ قراءت کی طرف لوٹنے کی وجہ سے رکوع ختم ہوگیا، کیونکہ قراءت فرض ہے اور قراءت جتنی بھی کی جائے، خواہ تمام قرآن پاک کی قراءت ہو، اس سے ایک ہی فرض ادا ہوگا، جیسا کہ اس پر فقہاء نے تصریح کی ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ج 6، ص 330، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
سجدہ سہو لازم ہونے کی صورت میں سجدہ سہو نہ کیا، تونماز واجب الاعادہ ہو گی۔ اس کے متعلق فتاوی امجدیہ میں ہے: ’’واجباتِ نماز سے ہر واجب کے ترک کا یہی حکم ہے کہ اگر سہواً ہو، تو سجدہ سہو واجب اور سجدہ سہو نہ کیا یا قصداً واجب کو ترک کیا، تو نماز کا اعادہ واجب ہے۔‘‘ (فتاوی امجدیہ، ج 1، ص 276، مکتبہ رضویہ، کراچی)
اقتداء کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ امام کی نماز مقتدی کی نماز کو ضمن میں لیے ہوئے ہو اور اس کی یہ صورت ہے کہ امام اور مقتدی کی نماز متحد ہو یا امام کی نماز مقتدی کی نماز سے اوپر درجے کی ہو۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
الامام ضامن و المؤذن مؤتمن اللھم ارشد الائمۃ و و اغفر للمؤذنین
ترجمہ: امام ضامن ہے اور مؤذن امین ہے۔ اے اللہ ! اماموں کو ہدایت پر رکھ اور مؤذنین کی بخشش فرما۔ (جامع ترمذی، ج 1، ص 282 رقم الحدیث: 207، دار الغرب الاسلامی، بیروت)
شمس الائمہ علامہ ابو بکر محمد بن احمد سرخسی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
و لنا قولہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم الامام ضامن معناہ تتضمن صلاتہ صلاۃ القوم و تضمین الشئ فیما ھو فوقہ یجوز و فیما ھو دونہ لا یجوز و ھو المعنیٰ فی الفرق فان الفرض یشتمل علی اصل الصلاۃ و الصفۃ و النفل یشتمل علی اصل الصلاۃ فاذا کان الامام مفترضا فصلاتہ تشتمل علی صلاۃ المقتدی و زیادۃ فصح اقتداؤہ بہ و اذا کان الامام متنفلا فصلاتہ لا تشتمل علی ما تشتمل علیہ صلاۃ المقتدی فلا یصح اقتداءہ بہ لانہ بنی القوی علی اساس ضعیف
ترجمہ: ہماری دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا یہ فرمان ہے کہ امام ضامن ہے۔ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اس کی نماز قوم (مقتدیوں) کی نماز کو ضمن میں لیے ہوتی ہے اور کسی چیز کو ضمن میں لینا اس میں جائز ہوتا ہے، جودوسری چیز سے اوپر درجے کی ہو اور اس میں جائزنہیں ہوتا، جودوسری چیز سے نیچے درجے کی ہو، (فرض و نفل کے) مسائل میں فرق کا یہی معنیٰ ہے، کیونکہ فرض اصلِ نماز اور صفت دونوں پر مشتمل ہے اور نفل اصلِ نماز پر مشتمل ہے، پس جب امام فرض پڑھ رہا ہو (اور مقتدی نفل پڑھ رہا ہو)، تو اس کی نماز مقتدی کی نماز پر اور اس سے زائد (ایک صفت) پر مشتمل ہو گی، لہٰذا اس کی اقتداء درست ہو گی اور جب امام نفل پڑھ رہا ہو (اور مقتدی فرض پڑھ رہا ہو)، تو اس کی نماز اس پرمشتمل نہیں، جس پر مقتدی کی نماز مشتمل ہے، لہٰذا اس کی اقتداء درست نہیں ہو گی، کیونکہ یہ ضعیف بنیاد کے او پر قوی کی بنا ہے (جو جائز نہیں)۔ (المبسوط، ج 1، ص 282، مطبوعہ کوئٹہ)
چیز اپنی مثل کو یا نیچے درجے والی چیز کو ضمن میں لے سکتی ہے، اپنے سے اوپر درجے کی چیز کو ضمن میں نہیں لے سکتی۔ چنانچہ علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
متی امکن تضمین صلاۃ المقتدی فی صلاۃ الامام صح اقتداءہ بہ و ان لم یمکن لا یصح اقتداءہ بہ و الشئ انما یتضمن ما ھو مثلہ او دونہ و لایضمن ما ھو فوقہ
ترجمہ: جب مقتدی کی نماز امام کی نماز کے ضمن میں ہو، تو اس کی اقتداء درست ہو گی اور اگر ایسا نہ ہو، تو اس کی اقتداء درست نہیں ہو گی اور شئ اپنی مثل یا اپنے سے کم درجے والی چیز کو ضمن میں لے سکتی ہے، اپنے سے اوپر والی چیز کو ضمن میں نہیں لے سکتی۔ (البحر الرائق، ج 1، ص 364، دار الکتاب الاسلامی، بیروت)
واجب الاعادہ نماز، فرض نماز کو ضمن میں نہیں لے سکتی، کیونکہ اس کا درجہ فرض سے نیچے کا ہوتا ہے، لہٰذا واجب الاعادہ کے طور پر نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھنے والے کی اقتداء درست نہیں ہو گی۔ چنانچہ صدر الشریعۃ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۂ (اپنے ایک عربی زبان میں لکھے فتوے میں) ارشاد فرماتے ہیں:
اعلم ان الاقتداء ھو ربط صلوٰتہ بصلوٰۃ الامام فلابد لہ من ان تکون صلوٰۃ الامام متحدۃ بصلوٰۃ المقتدی بان تکون صلاتھما واحدۃ او تکون صلوٰۃ الامام متضمنۃ لصلوٰۃ المقتدی کاقتداء المتنفل بالمفترض فان الفرض مقید و النفل مطلق و المطلق داخل فی المقید و اذا عرفت ھذا فاعلم ان الذی صلی الفرض مع ترک الواجب فقد ادای فرضہ لکن بترک الواجب صارت صلوٰتہ ناقصۃ و وجب علیہ الاعادۃ لجبر النقصان فلما اشتغل بالاعادۃ فھو لیس بمفترض لان الفرض سقط من ذمتہ بل ھو یتم و یکمل الفرض و من لم یصل الفرض یؤدی فرضہ فلو اقتدی بہ یلزم التغایر بین صلاتھما و لم یوجد معنی الاقتدیٰ ای الربط و ایضاً یلزم بناء الاقوی علی الاضعف و ھو لا یجوز
ترجمہ: جان لو! اقتداء امام و مقتدی کی نماز کے مابین ایک ربط و تعلق (کا نام) ہے، پس اس کے لیے ضروری ہے کہ امام و مقتدی کی نماز متحد ہو، بایں طور کہ ان دونوں کی نماز ایک ہو یا امام کی نماز مقتدی کی نماز کو ضمن میں لیے ہوئے ہو جیسے نفل پڑھنے والے شخص کا فرض پڑھنے والے کی اقتداء کرنا، کیونکہ فرض مقید ہے اور نفل مطلق ہے اور مطلق مقید میں داخل ہوتا ہے۔ جب تمہیں اس بات کی معرفت حاصل ہو گئی، تو جان لو! کہ وہ شخص جس نے ترکِ واجب کے ساتھ فرض نماز ادا کی، تو اس کا فرض ادا ہو گیا، لیکن ترکِ واجب کی وجہ سے اس کی نماز ناقص طور پہ ادا ہوئی اور اس نقص (کمی) کو پورا کرنے کے لیے اس پر نماز کا اعادہ واجب ہے، تو جب وہ اعادہ کرنے میں مشغول ہوا، تو اس کی نماز فرض نماز نہیں ہو گی، کیونکہ فرض اس کے ذمے سے ساقط ہو چکا، بلکہ اعادے والی نماز فرض کو کامل و تمام کرنے کے لیے ہے اور جس نے فرض نماز نہیں پڑھی، وہ اپنے فرض ادا کر رہا ہے، تو اگر وہ واجب الاعادہ والے کی اقتداء کرے گا، تو ان دونوں کی نماز میں تغایر لازم آئے گا اور اقتداء کا معنیٰ یعنی ربط و تعلق نہیں پایا جائے گا اور قوی کی ضعیف پر بنا بھی لازم آئے گی اور یہ (بھی) جائز نہیں ہے۔ (فتاوی امجدیہ، ج 1، ص 169 تا 170، مکتبہ رضویہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: Pin-7487
تاریخ اجراء: 04 صفر المظفر 1446ھ / 10 اگست 2024ء