والدین کی قضا نمازوں اور روزوں کی ادائیگی کرنے کا حکم

والدین کی قضا نمازوں اور روزوں کی ادائیگی کرنے کاحکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا اولاد اپنے والدین کی طرف سے قضا نمازیں پڑھ سکتی ہے یا قضا روزے رکھ سکتی ہے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

نماز و روزہ عبادت بدنیہ ہے اور عبادت بدنیہ میں نیابت نہیں ہوسکتی، لہذا اگر میت کے ذمے قضا روزے یا قضا نمازیں ہوں تو اس کی طرف سے کوئی دوسرا شخص  اس کی قضا نمازیں اور روزے ادا نہیں کرسکتا اور اگر کوئی اداکرے تواس کی وجہ سے میت سے  وہ  فرض نہیں اترے گا۔ ہاں!ان کا فدیہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ ہر نماز اور ہر روزے کا فدیہ، ایک صدقہ فطر کی مقدار برابر ہے کہ اتنی مقدار کسی فقیر شرعی کو میت کی نماز یا اس کے روزے کی طرف سے دے دی جائے تو اس سے ایک نماز یا ایک روزے کا فدیہ ادا ہوجائے گا، اب جتنے روزوں اور جتنی نمازوں کا فدیہ ادا کرنا چاہتے ہیں، اتنے صدقہ فطر کی مقدار برابر رقم شرعی فقیر کو ادا کردیں گے تو ان سب کا فدیہ ادا ہوجائے گا۔

اگرمیت نے وصیت کی ہے اور مال چھوڑا ہے تو اس کے مال کے تہائی حصے سے فدیہ اداکیاجائے، اگر تہائی حصہ کم ہو اور فدیہ کی رقم زیادہ بنتی ہو تو پھر فقیر شرعی مالک بننے کے بعد اپنی مرضی سے وارث کو گفٹ کردے اورپھروارث، اس رقم پرقبضہ کرنے کے بعد اس کومیت کے فدیہ میں دے دے، یونہی لوٹ پھیرکرتے رہیں، یہاں تک کہ فدیہ ادا ہوجائے۔

اور اگر وصیت نہیں کی یا وصیت تو کی لیکن مال نہیں چھوڑا تو وارث اپنے مال سے فدیہ ادا کرسکتا ہے، اگر مال کم ہو تو اوپر مذکور طریقے کے مطابق لوٹ پھیر کرکے فدیہ مکمل کرلیاجائے۔ اور اگروارث کے پاس مال نہ ہو تو وہ کچھ رقم قرض لے کر بھی فدیہ ادا کرسکتا ہے اور رقم کم ہو تو اوپر مذکور طریقے کے مطابق لوٹ پھیر کرسکتا ہے۔

عبادت بدنیہ میں نیابت کے متعلق بدائع الصنائع میں علامہ کاسانی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

”والبدنية المحضة لا تجوز فيها النيابة على الاطلاق لقوله عز وجل ﴿وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى﴾ الا ما خص بدليل وقول النبی صلى الله عليه وسلم (لا يصوم احد عن احد ولا يصلی احد عن احد) ای فی حق الخروج عن العهدة لا فی حق الثواب“

 ترجمہ: جو محض بدنی عبادات ہوں ان میں مطلقا نیابت جائز نہیں، اللہ تعالی کے اس فرمان کی وجہ سے (اور یہ کہ انسان کےلئے وہی ہوگا جس کی اس نے کوشش کی)، مگر جو کسی دلیل سے خاص ہو جائے (اس میں نیابت درست ہو گی) اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے کہ" نہ کوئی کسی کی طرف سے روزہ رکھے، اور نہ کوئی کسی کی طرف سے نماز ادا کرے، یہ فرمان اپنے اوپر لازم شدہ کام سے بر ی الذمہ ہونے کے حق میں ہے نہ کہ ثواب کے حق میں۔ (بدائع الصنائع، جلد 02، صفحہ 212، دارالکتب العلمیۃ، بیروت) 

بہار شریعت میں صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ”میت نے ولی کو اپنے بدلے نماز پڑھنے کی وصیّت کی اور ولی نے پڑھ بھی لی تو یہ ناکافی ہے۔ ( بہار شریعت،  جلد 1،  حصہ 4،  صفحہ 707، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

در مختار میں ہے

 "(ولو مات وعليه صلوات فائتة و أوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطى (من ثلث ماله) ولو لم يترك مالا يستقرض وارثه نصف صاع مثلا ويدفعه لفقير ثم يدفعه الفقير للوارث، ثم وثم حتى يتم۔"

ترجمہ: اگر کوئی شخص مرا اور اس پر فوت شدہ نمازیں ہوں اور اس نے کفارے کی وصیت کی ہو تو ہر نماز کے بدلے نصف صاع گندم دی جائے گی، صدقہ فطر کی طرح۔ اور وتر اور روزے کا بھی یہی حکم ہے۔ اور اس کے مال (یعنی ترکہ) کی تہائی سے کفارہ دیا جائے گا اور اگر اس نے مال نہ چھوڑا ہو تو اس کا وارث مثلاً نصف صاع قرض لے اور  اسے فقیر کو دے پھر فقیر وہ وارث کو دے پھر اسی طرح لوٹ پھیر کرتا رہے یہاں تک کہ کفارہ مکمل ہو جائے۔ (الدر المختار، جلد02، ص643 تا 645، مطبوعہ: کوئٹہ)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے

"وفي فتاوى الحجة وإن لم يوص لورثته وتبرع بعض الورثة يجوز"

 ترجمہ: اور فتاوی الحجۃ میں ہے کہ اگر اس نے اپنے وارثوں کو وصیت نہیں کی اور بعض ورثا نے تبرعا کفارہ دے دیا تو جائز ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، جلد1، صفحہ 125، دارالفکر، بیروت)

امداد الفتاح میں ہے

 "(وإن لم يف ما أوصى به) الميت (عما عليه) أو لم يوص بشيء وأراد الولي التبرع بما لا يفي بذلك عن الواجبات التي بيناها (يدفع ذلك المقدار للفقير ) بقصد إسقاط ما يريد عن الميت (فيسقط عن الميت بقدره ثم) بعد قبضه (يهبه الفقير للولي ويقبضه) لتتم الهبة وتملك (ثم يدفعه) الولي للفقير بجهة الإسقاط (فيسقط عن الميت بقدره) أيضاً، ثم (يهبه الفقير للولي ويقبضه ثم يدفعه) الولي (للفقير، وهكذا) يفعل مراراً (حتى یسقط ما كان) يظنه (على الميت من صلاة وصيام) ونحوهما مما ذكرناه من الواجبات وهذا هو المخلص في ذلك ان شاء بمنہ وکرمہ"

 ترجمہ: اور جسں کی میت نے وصیت کی وہ اگر اس پرلازم شدہ (واجبات) کو پورا نہ کرے یا اس نے بالکل وصیت ہی نہ کی اور ولی اتنے مال کے ذریعے تبرعا ادا کرنا چاہے جو میت کے ان واجبات کو پورا نہیں کرتا جسے ہم نے بیان کر دیا تو وہ جتنے واجبات میت کی طرف سے ادا کرنا چاہتا ہے، ان کوساقط کرنے کی نیت سے اتنی مقدار فقیر کو دے گا، پس میت سے اسی کی مقدار ساقط ہو جائے گا پھر قبضہ کے بعد فقیر وہ مال، ولی کو ہبہ کر دے اور ولی قبضہ کر لے تاکہ ہبہ تام ہو جائے اور وہ مالک ہو جائے پھر ولی وہ (دوبارہ)اسقاط کے طور پر فقیر کو دے، پس میت سے اس کی مقدار برابر بھی ساقط ہو جائے گا پھر فقیر وہ مال، ولی کو ہبہ کر دے اور وہ قبضہ کر کے دوبارہ فقیر کو دے دے، اور اسی طرح بار بار کرتا رہے یہاں تک کہ ساقط ہو جائے جو وہ میت پر نماز اور روزے اور ان کی مثل واجبات میں سے ہماری بیان کردہ چیزوں کا گمان کرتا ہے، اگر اللہ نے چاہاتواس کے فضل و کرم سے اس معاملے میں یہی خلاصی کی صورت ہے۔ (امداد الفتاح، صفحہ 485، مطبوعہ :کوئٹہ)

بہارِ شریعت میں ہے "جس کی نمازیں قضا ہو گئیں اور انتقال ہوگیا تو اگر وصیّت کر گیا اور مال بھی چھوڑا تو اس کی تہائی سے ہر فرض و وتر کے بدلے نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جَو تصدق کریں اور مال نہ چھوڑا اور ورثا فدیہ دینا چاہیں تو کچھ مال اپنے پاس سے یا قرض لے کر مسکین پر تصدق کرکے اس کے قبضہ میں دیں اور مسکین اپنی طرف سے اسے ہبہ کر دے اور یہ قبضہ بھی کر لے پھر یہ مسکین کو دے، یوہیں لوٹ پھیر کرتے رہیں یہاں تک کہ سب کا فدیہ ادا ہو جائے۔ اور اگر مال چھوڑا مگر وہ ناکافی ہے جب بھی یہی کریں اور اگر وصیّت نہ کی اور ولی اپنی طرف سے بطور احسان فدیہ دینا چاہے تو دے اور اگر مال کی تہائی بقدر کافی ہے اور وصیّت یہ کی کہ اس میں سے تھوڑا لے کر لوٹ پھیر کر کے فدیہ پورا کر لیں اور باقی کو ورثا یا اور کوئی لے لے تو گنہگار ہوا۔" (بہارِ شریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ707، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر:  WAT-4168

تاریخ اجراء: 07 ربیع الاول1447 ھ/01ستمبر 2520 ء