
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری جائے پیدائش اور اصل رہائش ٹیکسلا شہر میں ہے، جبکہ میں پشاور میں ڈیوٹی کرتا ہوں اور وہیں نوکری کی وجہ سے عارضی طور پر رہتا ہوں،کچھ دنوں بعد میں نے ایک کام کے سلسلے میں ایک دن کے لیےبراستہ جی ٹی روڈ، پشاور سے راولپنڈی جانا ہے جوکہ 92 کلومیٹر سے زیادہ سفر ہے، جبکہ پشاور سے راولپنڈی جاتے ہوئے میں ٹیکسلا شہر میں تقریباً آدھے گھنٹے کے لیے رکوں گا، پھر وہاں سے راولپنڈی روانگی ہے۔ پشاور سے ٹیکسلا 92 کلومیٹر سے زیادہ سفر ہےجبکہ ٹیکسلاسے راولپنڈی کا فاصلہ 35 سے 40 کلومیٹر ہے۔ شرعی رہنمائی فرمائیں کہ میں راولپنڈی میں قصر نماز پڑھوں گا یا پوری چار رکعت؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں شرعاً آپ راولپنڈی میں مسافر نہیں بلکہ مقیم شمار ہوں گے، لہذا آپ وہاں پوری چا ررکعت نماز پڑھیں گے۔
اس مسئلے کی تفصیل یہ ہےکہ انسان کا وطنِ اصلی اس کی اقامت کے لئے متعین ہے، تو چاہے مقیم ہونے کی نیت کرے یا نہ کرے، بہر صورت وہاں داخل ہوتے ہی شرعاًمقیم ہو جائے گا اور اس کا سفرِ شرعی ختم ہو جائے گا، اگرچہ محض کچھ دیر کے لیے یا فقط گزرنے کے لئے ہی داخل ہوا ہو۔ لہذا جب آپ اپنے وطن اصلی یعنی ٹیکسلاشہر کی متصل آبادی میں داخل ہوں گے تو شرعی مسافر نہ رہیں گے، بلکہ مقیم ہوجائیں گے اور پھر اس کے بعد راولپنڈی کا سفر کرنے کی وجہ سے بھی شرعاً مسافر نہیں کہلائیں گے، کہ ٹیکسلا سے راولپنڈی کا فاصلہ شرعی مسافت یعنی 92 کلومیٹر سے کم ہے۔
وطنِ اصلی میں داخل ہوتے ہی شرعی سفر ختم ہو جائے گا، جیساکہ مراقی الفلاح میں ہے:
(یقصر حتی یدخل مصرہ) یعنی وطنہ الاصلی(أو ینوی اقامۃ نصف شھر ببلد أو قریۃ)
ترجمہ: مسافرقصر کرے گا، یہاں تک کہ اپنے شہر یعنی اپنے وطن اصلی میں داخل ہو جائے یا کسی شہر یا گاؤں میں آدھا مہینہ (پندرہ دن) ٹھہرنےکی نیت کر لے۔
مذکورہ عبارت کے تحت علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
قولہ:(یعنی وطنہ الاصلی) و الاطلاق دال علی ان الدخول أعم من ان یکون للاقامۃ أو لا و لحاجۃ نسیھا
ترجمہ: مصنف رحمۃ اللہ علیہ کا قول:(یعنی اپنے وطن اصلی) اور اطلاق اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ داخل ہونا عام ہے، چاہےوہ ٹھہرنے کے لئے ہو یا (ٹھہرنے کے لئے) نہ ہو اور کسی ایسی حاجت کے لئے ہو، جسے وہ بھول گیا ہو۔ (حاشیۃالطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 425، ملتقطاً، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
وطن اصلی اقامت کے لئے متعین ہے۔ چنانچہ جوہرہ نیرہ، شرح مقدمۃ الغزنوی، ہندیہ اور رد المحتار وغیرہ میں ہے:
و اللفظ للجوھرۃ: و اذا دخل المسافر مصرہ اتم الصلاۃ وان لم ینو الاقامۃ فیہ، سواء دخلہ بنیۃ الاجتیاز او دخلہ لقضاء الحاجۃ، لأن مصره متعين للاقامة فلا يحتاج إلى نية
ترجمہ: جب مسافر اپنے وطن اصلی میں داخل ہو جائے تو وہ پوری نماز پڑھے گا، اگر چہ وہاں اس کی ٹھہرنے کی نیت نہ ہو، چاہے وہ گزرنے کے ارادے سےداخل ہوا ہو یا کسی حاجت کو پورا کرنے کے لیے داخل ہوا ہو، کیونکہ اس کا شہر اقامت کے لئے متعین ہے، لہذا(مقیم ہونے کے لئے) نیت کی حاجت نہیں۔ (الجوھرۃ النیرۃ ،جلد 1،صفحہ 219، دار الکتب العلمیہ ، بیروت)
اعلیٰ حضرت،امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”(زید)جب اپنے وطن کی آبادی میں آگیا، قصر جاتا رہا، جب تک یہاں رہے گا، اگرچہ ایک ہی ساعت، قصر نہ کرسکے گا کہ وطن میں کچھ پندرہ روز ٹھہرنے کی نیت ضرور نہیں۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 08، ص 258، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہارِ شریعت میں ہے: ”مسافر جب وطنِ اصلی میں پہنچ گیا، سفر ختم ہوگیا، اگرچہ اقامت(ٹھہرنے) کی نیت نہ کی ہو۔“ (بہارِ شریعت، ج 01، ص 751، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: PIN-7614
تاریخ اجراء: 27محرم الحرام1446ھ/23جولائی2025ء