وطنِ اقامت کب باطل ہوگا؟ صرف نیت سے یا سفر کرنے سے؟

وطنِ اقامت کب باطل ہوگا ؟ صرف نیت کر لینے سے یا سفر کرنے سے ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میں کراچی میں اپنے گھر سے سو کلو میٹر دور ایک شہر میں رشتہ داروں کے یہاں آیا تھا، میری یہاں 17 دن ٹھہرنے کی نیت تھی، لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ امی کی طبیعت کافی خراب ہو گئی ہے جس کی وجہ سے میں نے 13ویں دن ہی نیت کرلی کہ میں 14ویں دن شام میں یہاں سے کراچی کیلئے نکل جاؤں گا، اب مجھے اس حوالے سے چند باتیں پوچھنی ہیں:

(1) جب تک میں یہاں موجود ہوں  یعنی کراچی کیلئے سفر کرنے سے پہلے نماز مکمل ادا کروں گا یا نیت کی وجہ سے قصر کرنا پڑے گی ؟

(2)یوہیں کراچی پہنچنے سے پہلے راستے میں نماز کو مکمل پڑھنے یا قصر کرنے کا کیا حکم ہے ؟

(3)اپنے شہر کراچی پہنچ جانے کے بعد دوبارہ سے مجھے وہاں اقامت کی نیت کرنی ہوگی یا نہیں ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں جب تک آپ وہیں موجود ہیں یعنی اس جگہ سے کراچی کیلئے سفر شروع نہیں کردیتے، اس وقت تک آپ نماز کو مکمل ہی پڑھیں گے، قصر نہیں کریں گے۔ ہاں! جب آپ باقاعدہ وہاں سے کراچی کیلئے  سفر شروع کریں گے تو اس شہر کی آبادی سے باہر نکلتے ہی کراچی کی آبادی میں داخل ہونے تک راستے میں قصر کریں گے اور کراچی میں داخل ہوتے ہی قصر کا حکم ختم ہوجائے گا، وہاں پہنچ کر نیت اقامت کی حاجت نہیں ہے۔

مسئلہ کی تفصیل کچھ اس طرح ہےکہ شرعی اعتبار سے موضعِ اقامت یعنی ایسی جگہ جہاں اقامت کی نیت کی جاسکے، وہاں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرنے سے انسان شرعاً مقیم شمار ہوتا ہے، اس کے لیے محض نیت ہی کافی ہے، البتہ مسافر ہونے کے لیے صرف نیت کافی نہیں، بلکہ نیت کے ساتھ سفر کا آغاز بھی ضروری ہے اور شرعاً سفر کا آغاز اس وقت متحقق ہوتا ہے جب آدمی شہر کی آبادی سے باہر نکل جائے، لہٰذا جب آپ نے اپنے وطنِ اصلی (کراچی) سے تقریباً سو کلو میٹر دور ایک شہر میں 17 دن ٹھہرنے کی نیت کی تھی تو شرعاً آپ وہاں مقیم شمار ہوئے، کیونکہ اقامت کے لیے نیتِ اقامت ہی کافی ہوتی ہے۔ پھر جب آپ نے 13ویں دن یہ نیت کی کہ کل یہاں سے کراچی کیلئے نکلوں گا تو محض اس نیت سے آپ مسافر نہیں بنے، کیونکہ مسافر ہونے کے لیے صرف نیت کافی نہیں بلکہ سفر کا حقیقی آغاز (شہر کی آبادی سے نکلنا) ضروری ہے، اس لئے جب تک آپ اس شہر کی حدود کے اندر ہیں، آپ مقیم ہیں اور مکمل نماز ادا کریں گے اور جیسے ہی آپ اس شہر کی آبادی سے باہر نکل جائیں گے، آپ شرعاً مسافر بن جائیں گے، اب قصر کے ساتھ نماز پڑھیں گے، اس کے بعد جب آپ اپنے وطنِ اصلی یعنی  کراچی کی حدود میں داخل ہوں گے تو سفر کا حکم ختم ہوجائے گا، چاہے آپ وہاں ایک دن بھی رہنے کا ارادہ نہ رکھتے ہوں، کیونکہ وطنِ اصلی ایسا مقام ہے جو نہ تو سفرِ شرعی سے باطل ہوتا ہے اور نہ ہی وطنِ اقامت سے۔ لہٰذا وطنِ اصلی میں داخل ہونے کے بعد نیتِ اقامت کی تجدید کی کوئی ضرورت نہیں۔

مسافر محض نیت اقامت سے مقیم بن جاتا ہے جبکہ مسافر شرعی ہونے کیلئے نیت کے ساتھ عمل یعنی سفر بھی ضروری ہے، چنانچہ محرر مذہب حنفی  امام محمد بن حسن شیبانی علیہ الرحمۃ اپنی مبسوط میں سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں:

”ولا يكون مسافرا بالنية كما يكون مقيما بالنية لأنه لا يكون مسافرا حتى يسير والإقامة إنما تكون بالنية“

ترجمہ:  اور وہ محض نیت سے مسافر نہیں ہوگا جیساکہ محض نیت سے مقیم ہوجاتا ہے کیونکہ وہ سفر کئے بغیر مسافر نہیں ہوگا اور اقامت تو نیت سے ہی ثابت ہوجاتی ہے۔ (الاصل للامام محمد، ج01، ص270، إدارة القرآن والعلوم الإسلامية - كراتشي)

اس کی وضا حت کرتے ہوئے امام شمس الائمہ سرخسی علیہ الرحمۃ مبسوط میں اور  امام ابو بكر جصاص رازی علیہ الرحمۃ شرح مختصر الطحاوی میں لکھتے ہیں،

واللفظ للمبسوط: ”والأصل أن النية متى تجردت عن العمل لا تكون مؤثرة، فإذا نوى الإقامة في موضع الإقامة فقد اقترنت النية بعمل الإقامة فصار مقيما، وإذا نوى السفر فقد تجردت النية عن العمل ما لم يخرج فلا يصير مسافرا، وهو نظير ما لو نوى في عبد التجارة أن يكون للخدمة صار للخدمة، ولو نوى في عبد الخدمة أن يكون للتجارة لا يصير لها ما لم يتجر فيه“

ترجمہ: اور اصل یہ ہے کہ جب نیت عمل سے خالی ہو تو وہ مؤثر نہیں ہوتی، تو جب کسی نے اقامت کے قابل جگہ میں اقامت کی نیت کی تو وہاں عمل اقامت کے ساتھ نیت کا ملا ہوا ہونا پایا گیا تو وہ مقیم ہوجائے گا اور جب کسی نے سفر کی نیت کی تو یہاں نیت عمل سے خالی ہے جب تک وہ وہاں سے نہ نکلے تو وہ مسافر نہیں ہوگا اور اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر کسی نے تجارت کے غلاموں میں  ان کے خدمت کیلئے ہونے کی نیت کرلی تو وہ خدمت کیلئے ہوجائیں گے اور خدمت کے غلاموں میں تجارت کی نیت کی تو وہ تجارت کیلئے نہیں ہوں گے جب تک کہ ان میں عمل تجارت نہ کرے۔ (المبسوط للسرخسی، ج01، ص 239، دار المعرفة - بيروت) (شرح مختصر الطحاوی للجصاص، ج02، ص 339، دار السراج )

اور  سفر سے مراد  یہی ہے کہ وہ شہر کی آبادی سے باہر نکل آئے، آبادی سے نکلتے ہی مسافر ہوجائے گا، امام علاء الدین سمر قندی علیہ الرحمۃ تحفۃ الفقہاء میں ارشاد فرماتے ہیں:

”ثم إذا نوى مدة السفر لا يثبت حكم السفر ما لم يخرج من العمران فإذا خرج من عمران المصر لقصد السفر فقد وجد عزم مقارن للفعل فيكون معتبرا“

ترجمہ: پھر جب  کوئی شخص سفر شرعی کی مسافت کی نیت کرلے تو محض نیت سے سفر شرعی کا حکم ثابت نہ ہوگا جب تک کہ وہ وہاں کی آبادی سے باہر نہ نکل آئے تو جب وہ سفر کے قصد کے ساتھ  شہر کی آبادی سے باہر نکل آئے گا تو اب ایک ایسا عزم پایا گیا جوکہ فعل سے ملا ہوا ہے تو وہ معتبر ہوگا۔ (تحفۃ الفقھاء، ج01، ص 148، دار الكتب العلمية، بيروت)

اور اپنے وطن اصلی کی آبادی میں داخل ہونے تک راستے میں وہ مسافر ہی رہے گا، لہٰذا اس دوران قصر پڑھے گا، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے سوال کیا گیا کہ زید اپنے وطن سے ستر یا اسی کوس کے فاصلے پر کسی شہر میں ملازم ہے، وہاں سے سال دو سال کے بعد آٹھ دس روز کے واسطے اپنے مکان پر آیا اور پھر چلا گیا اس آمدورفت میں اس کو نماز قصر پڑھنی چاہیے یا نہیں؟

آپ رحمۃ اللہ علیہ جواباً فرماتے ہیں: ’’جب وہاں سے بقصد وطن چلے اور وہاں کی آبادی سے باہر نکل آئے اس وقت سے جب تک اپنے شہر کی آبادی میں داخل نہ ہو قصر کرے گا۔ “ (فتاویٰ رضویہ، ج8، ص258، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اور اپنے وطن میں داخل ہوتے ہی سفر کا حکم ختم ہوجائے گا اگر چہ ایک دن بھی اقامت کی نیت نہ ہو، اس کی بڑی واضح دلیل یہ ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ منورہ سے سفر شرعی کی مسافت پر جہاد کیلئے تشریف لے جاتے، تو وہاں سے مدینہ منورہ واپس تشریف لانے کے بعد نیت اقامت کی تجدید نہیں فرماتے تھے، اسی وجہ سے فقہاء کرام نے فرمایا کہ وطن اصلی سفر شرعی یا وطن اقامت سے باطل نہیں ہوتا، جیساکہ مبسوط سرخسی میں ہے:

”ولا يحتاج إلى نية الاقامة إذا دخل مصره، لأن النبي صلى الله عليه وسلم كان يخرج مسافرا إلى الغزوات ثم يعود إلى المدينة، ولا يجدد نية الاقامة“

ترجمہ: اور جب اپنے شہر میں داخل ہوجائے تو اس کو نیت اقامت کی حاجت نہیں ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مدینہ سے غزوات پر جاتے تھے پھر واپس مدینہ تشریف لانے پر نیت اقامت کی تجدید نہیں کرتے تھے۔ (المبسوط للسرخسی، ج01، ص 238، دار المعرفة - بيروت)

امام جمال الدین بابرتی علیہ الرحمۃ عنایہ شرح ہدایہ میں لکھتے ہیں:

”فإن قيل: فهو (وطن الاقامۃ )ضد للوطن الأصلي أيضا فلم لم يبطله؟ فالجواب: أنه لم يبطله بالأثر لما روي «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يخرج من المدينة إلى الغزوات ولم ينتقض وطنه بالمدينة» حيث لم يجدد نية الإقامة بعد الرجوع“

ترجمہ: تو اگر یہ سوال کیا جائے کہ وطن اقامت تو وطن اصلی کی بھی ضد ہے تو اس کی وجہ سے وطن اصلی باطل کیوں نہیں ہوتا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے باطل نہ ہونے کی وجہ یہ حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ سے غزوات پر تشریف لےجاتے تھے اور آپ کا مدینہ والا وطن نہ ٹوٹتا تھا، کیونکہ آپ مدینہ واپس تشریف لانے پر نیت اقامت کی تجدید نہیں فرماتے تھے۔ (العنایۃ شرح الھدایۃ، ج02، ص 44، دار الفکر )

فتاوٰی رضویہ میں ہے: ” جب اپنے وطن کی آبادی میں آگیا قصر جاتا رہا، جب تک یہاں رہے گا اگر چہ ایک ہی ساعت، قصر نہ کرسکے گا کہ وطن میں کچھ پندرہ روز ٹھہر نے کی نیت ضرور نہیں۔“ (فتاویٰ رضویہ، ج8، ص258، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی  محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:  HAB-0649

تاریخ اجراء:  15ربیع الثانی 1447ھ/09اکتوبر 2025 ء