وطنِ اقامت سے واپسی پر نماز قصر ہوگی یا پوری؟

وطن اقامت سے گھر جاتے ہوئے راستے سے واپس آگیا تو نماز قصر پڑھنی ہوگی؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی وطن اقامت سے وطن اصلی کے لیے نکلا پھر کسی وجہ سے بیچ راستے سے وطن اقامت لوٹ آیا، اب واپس ہونے پر اس کی وطن اقامت میں پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہے تو کیا وہ مسافر رہےگا یا مقیم؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

وطن اقامت سفر سے باطل ہوجاتا ہے، اگر چہ سفر ابھی مکمل نہ ہو بلکہ درمیان سے ہی واپس لوٹ آئے، لہذا اگر کوئی شرعی مسافت (92 کلو میٹر) کے ارادے سے وطن اقامت کی آبادی سے باہر نکل گیا، پھر کسی وجہ سے بیچ راستے سے واپس لوٹ آیا، تو وطن اقامت تو سفر سے باطل ہوچکا، اب واپس ہونے پر اگر اُسی پہلے وطن اقامت میں کم از کم پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت ہوگی تو مقیم ہوجائے گا،ورنہ اگر پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہوگی تو مسافر رہےگا اور نمازوں میں قصر کرے گا۔یونہی بہر صورت بیچ راستے سے واپسی وطن اقامت کی طرف سفر کے دوران بھی نمازوں میں قصر کرے گا۔

تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:

(و) یبطل (وطن الا قامۃ بمثلہ و) بالوطن (الاصلی و) بانشاء (السفر)

ترجمہ: وطن اقامت اپنے مثل وطن اقامت، وطن اصلی او ر سفر سے باطل ہوجاتا ہے۔ (تنویر الابصار مع در مختار، جلد 2، صفحہ739،دار المعرفۃ، بیروت)

فتح القدیر،بدائع الصنائع اور رد المحتار علی الدرالمختار میں ہے:

و اللفظ للاخر:  أن إنشاء السفر من وطن الإقامة مبطل له و إن عاد إليه و لذا قال في البدائع لو أقام خراساني بالكوفة نصف شهر ثم خرج منها إلى مكة فقبل أن يسير ثلاثة أيام عاد إلى الكوفة لحاجة فإنه يقصر لأن وطنه قد بطل بالسفر

ترجمہ:وطنِ اقامت سے سفر شروع کرنا اسے باطل کر دیتا ہے، اگرچہ وہ اس کی طرف واپس لوٹ آئے۔ اسی لیے بدائع میں فرمایا: اگر کوئی خراسانی شخص کوفہ میں آدھا مہینہ(پندرہ دن) ٹھہرا، پھر وہاں سے مکہ کے لیے نکلا، اور ابھی تین دن کا سفر طے کرنے سے پہلے ہی کسی ضرورت کے تحت واپس کوفہ لوٹ آیا، تو وہ نماز میں قصر کرے گا، کیونکہ سفر سے اس کا وطنِ اقامت باطل ہو چکا۔ (رد المحتار علی الدرالمختار، جلد 2، صفحہ 740،دار المعرفۃ، بیروت)

نور الایضاح مع مراقی الفلاح میں ہے:

و يبطل وطن الإقامة بمثله و يبطل أيضا بإنشاء السفر بعدہ

ترجمہ: اور وطن اقامت اپنے مثل وطن اقامت سے باطل ہوجاتا ہے اور  وطن اقامت اس میں اقامت کرلینے کے بعد سفر شروع کردینے سے بھی باطل ہوجاتا ہے۔

اس کے تحت حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

قوله: "بإنشاء السفر" حتى لو عاد إلى حاجة فيه قصر

 ترجمہ: ان کا قول کہ سفر شروع کردینے سے باطل ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی حاجت کی وجہ سے وہاں لوٹ آئے تو وہ (پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہونے پر) قصر کرے گا۔ (حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 430،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

فتاوی قاضی خان میں ہے:

المسافر إذا جاوز عمران مصره فلما سار بعض الطريق تذكر شيئاً في وطنه فعزم الرجوع إلى الوطن لأجل ذلك۔۔۔۔ان لم یکن وطنا اصلیا لہ فانہ یقصر الصلاۃ ما لم ینوالاقامۃ بھا خمسۃ عشر یوما

ترجمہ: مسافر جب اپنے شہر کی آبادی سے باہر ہوجائے، پھر جب تھوڑا راستہ چلے تو اسے اپنے وطن میں کوئی چیز یا د آجائے تو اس چیز کی وجہ سے وہ وطن لوٹنے کا ارادہ کرلے۔۔۔ تو اگر (واپسی جہاں جارہا ہے)  وہ وطن اس کا وطنِ اصلی نہ ہو، تو نماز قصر پڑھے گا جب تک کہ وہاں پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ نہ کرلے۔ (فتاوی قاضی خان، جلد 1، باب صلاۃ المسافر، صفحہ 148،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے فتاوی رضویہ میں سوال ہوا کہ کوئی شخص اپنے وطن اصلی سے سفر کر کے دوسری جگہ میں جو سفر شرعی تین منزل سے زائد ہے بضرورت تعلقات تجارت یا نوکری وغیرہ کے جارہا ہو مگر اہل وعیال اس کے وطن اصلی میں ہوں۔۔۔ ایسی صورت میں یہ شخص کہیں سے سفر کرتا ہوا وطن ثانی میں آئے اور ۱۵ روز قیام کا قصد نہ رکھتا ہو تو صلاۃ رباعیہ کو پورا پڑھے مثل وطن اصلی کے یا قصر کرے مثل مسافروں کے؟

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا: ’’جبکہ وہ دوسری جگہ نہ اس کا مولد ہے نہ وہاں اس نے شادی کی نہ اسے اپنا وطن بنالیا یعنی یہ عزم نہ کرلیا کہ اب یہیں رہوں گا اور یہاں کی سکونت نہ چھوڑوں گا بلکہ وہاں کا قیام صرف عارضی بر بنائے تعلق تجارت یا نوکری ہے تو وہ جگہ وطن اصلی نہ ہوئی اگر چہ وہاں بضرورت معلومہ قیام زیادہ اگر چہ وہاں برائے چندے یا تا حاجت اقامت بعض یا کل اہل وعیال کو بھی لے جائے کہ بہر حال یہ قیام بیک وجہ خاص سے ہے نہ مستقل و مستقر، تو جب وہاں(وطن اقامت میں) سفر سے آئے گا جب تک ۱۵ دن کی نیت نہ کرے گا قصر ہی پڑھے گا کہ وطن اقامت سفر کرنے سے باطل ہوجاتا ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 271، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-933

تاریخ اجراء: 16 ربیع الاخر 1446ھ / 10 اکتوبر 2025ء