زبان پر فالج ہو تو نماز پڑھنے کا طریقہ

زبان پر فالج ہو تو نماز ادا کرنے کا طریقہ

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

اگر کسی کو زبان پر فالج ہو جائے اور اس کی وجہ سے اس سے لفظ ادا ہی نہ ہوں، تو کیا وہ دل میں نماز پڑھے تو اس کی نماز ہو جائے گی یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اگر کوئی شخص عاقل و بالغ ہے لیکن زبان پر فالج ہونے کی وجہ سے،وہ الفاظ کی ادائیگی پرقادرنہیں ہے تو وہ نماز کے تمام افعال (جیسے قیام، رکوع، قومہ، سجدہ، قعدہ) ویسے ہی ادا کرے گا جیسے عام مسلمان کرتے ہیں اور تلاوت، تکبیرات اور دُعائیں دل میں پڑھے گا، اس پر الفاظ کی ادائیگی واجب نہیں ہےبلکہ دل میں ارادہ کافی ہے جیسے گونگے کا معاملہ ہے۔

در مختار میں ہے

(و لا يلزم العاجز عن النطق) كأخرس و أمي (تحريك لسانه) و كذا في حق القراءة هو الصحيح لتعذر الواجب، فلا يلزم غيره إلا بدليل فتكفي النية

ترجمہ: جو شخص بولنے پر قادر نہیں، جیسے گونگا اور امی، اس کے لیے (تکبیرتحریمہ کے لیے) زبان کو حرکت دینا ضروری نہیں، اور اسی طرح قراءت کے معاملے میں بھی زبان کوحرکت دیناضروری نہیں ہے، اور یہی صحیح ہے کیونکہ واجب (یعنی بولنا) متعذر ہے، لہذا بلا دلیل اس کا غیر لازم نہیں ہو گا، پس نیت کافی ہو گی۔ (الدر المختار مع رد المحتار، جلد 2، صفحہ 220، مطبوعہ: کوئٹہ)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے

و تجوز صلاة الأخرس إذا صلى منفردا و إن كان قادرا على الاقتداء بالقارئ. هكذا في التتار خانية

ترجمہ: گونگا اگر اکیلا نماز پڑھے تو اس کی نماز جائز ہے، اگرچہ وہ قاری کی اقتدا کرنے پر قادر ہو، ایسا ہی تاتارخانیہ میں ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، جلد 1، صفحہ 85، مطبوعہ: بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے

تکبیر تحریمہ در ہر نماز مطلقا حتی صلاۃ الجنازۃ و رکوع و سجود و قرأت و قعود درہر نمازِ مطلق اگرچہ نافلہ باشد وقیام درہرنماز فرض وواجب ونیز درسنّت فجر علی الاصح وخروج بصنع خود علی تخریج البروعی بخلاف الکرخی اینہمہ فرض است وتعدیل ارکان واجب وقدرت ہمہ جاشرط است اخرس رابتکبیر و قرأت و مریض مؤمی را بررکوع و سجود تکلیف ندہند

ترجمہ: تکبیر تحریمہ، ہر نماز میں، حتی کہ نماز جنازہ میں بھی۔ رکوع، سجود، قرأت اور قعود (نماز جنازہ کے علاوہ) ہر نماز میں، خواہ نفلی نماز ہو۔ قیام، ہر اس نماز میں جو فرض اور واجب ہو اور اصح قول کے مطابق فجر کی سُنّتوں میں بھی۔ اپنے کسی عمل سے نماز سے خارج ہونا بروعی کی تخریج کے مطابق، کرخی کا اس میں اختلاف ہے۔ یہ سب فرائض ہیں اور تعدیل ارکان واجب ہے۔ لیکن استطاعت سب میں شرط ہے۔ گونگا تکبیر وقرأت کا اور اشارہ کرنے والا مریض رکوع وسجود کا مکلّف نہیں ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 5، صفحہ 326، رضا فاؤندیشن، لاہور)

بہار شریعت میں ہے ”جو شخص تکبیر کے تلفظ پر قادر نہ ہو مثلاً گونگا ہو یا کسی اور وجہ سے زبان بند ہو، اس پر تلفظ واجب نہیں، دل میں ارادہ کافی ہے۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ508، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتوی نمبر: WAT-4361

تاریخ اجراء: 01 جمادی الاولٰی 1447ھ / 24 اکتوبر 2025ء