نماز کی نیت زبان سے کرنا بدعت ہے ؟

زبان سے نماز کی نیت کرنا بدعت ہے ؟

دارالافتاء اہلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ فقہ حنفی کی کتب میں زبان سے نماز کی نیت کرنے کو بدعت لکھا ہوا ہے، جبکہ بعض کتبِ احناف میں زبان سے نیت کو سنت لکھا ہے۔ اس تعارض میں تطبیق کی کیا صورت ہو گی ؟ سائل: قاری شیر علی قادری (اسلام آباد)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اولاً یہ ذہن نشین ہونا چاہئے کہ بنیادی طور پر نیت دل کے پختہ ارادے کو کہتے ہیں، دل میں کسی کام کا پختہ ارادہ کر لیا، تو یہ نیت کرنا کہلائے گا، البتہ دل میں نیت ہوتے ہوئے زبان سے بھی اس کے الفاظ ادا کرلینا مستحسن و مستحب عمل ہے اور مشائخ کرام نے اسے پسند کیا ہے، کیونکہ دل میں عموما ً خیالات کی کثرت ہوتی ہے، اس وجہ سے نیت کواچھے طریقے سے حاضر رکھنا مشکل امرہے، تو زبان سے نیت کے کلمات کا تلفظ کرنے سے دل کی نیت بھی حاضر رہتی ہے۔

البتہ زبان سے نماز کی نیت کرنے کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم اورصحابہ کرام علیہم الرضوان سے نہیں ملتا، اسی لیے فقہائے کرام اسے بدعت سے تعبیر کیا ہے، لیکن خیال رہے یہاں بری بدعت مراد نہیں، بلکہ اس سے مراد بدعتِ حسنہ ہے ۔ بدعت اس لحاظ سے کہ یہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم و صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ثابت نہیں ہے اور حسنہ اس لحاظ سے کہ یہ شریعت مطہرہ کے کسی اصول کے خلاف نہیں اور جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ فقہ حنفی کی بعض کتابوں میں اسے سنت بھی کہا گیا ہے، تو اس سے مراد سنتِ رسول علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام یا سنتِ صحابہ نہیں، بلکہ علماء و مشائخ کی سنت (طریقہ) یا ان کا پسندیدہ / اچھا عمل ہے، لہذا بدعت اور سنت والے دونوں اقوال میں درحقیقت کوئی تعارض نہیں، بلکہ دونوں ہی اپنے اپنے محل کے اعتبار سے درست ہیں۔

نیت کے متعلق تنویر الابصار میں ہے:

’’والنیۃ و ھی الارادۃ لا العلم و المعتبر فیھا عمل القلب۔۔ التلفظ بھا مستحب‘‘

 ترجمہ: اور نیت ارادے کا نام ہے، نہ کہ (محض) علم کا اور اس میں دل کا عمل (دل کا ارادہ) معتبر ہے اور زبان سے اس کا تلفظ مستحب ہے۔ (تنویر الابصار، ج2، ص111 تا 113، مطبوعہ پشاور)

رد المحتار میں ہے:

’’ان فعلہ لیجمع عزیمۃ قلبہ فحسن‘‘

 ترجمہ: اگر زبان سے بھی نیت کر لے تا کہ دل کی عزیمت جمع ہو جائے، تو اچھا ہے۔ (ردالمحتار، ج2، ص114، مطبوعہ پشاور)

زبان سے تلفظ کے مستحب ہونے کے متعلق محیط برہانی میں ہے :

’’هل يستحب أن يتكلم بلسانه؟ اختلف المشايخ فيه، بعضهم قالوا: لا، لأن اللہ تعالى مطلع على الضمائر، وبعضهم قالوا: يستحب وهو المختار، وإليه أشار محمد رحمه اللہ في أول كتاب المناسك‘‘

 ترجمہ: کیا زبان سے نیت کرنا مستحب ہے ؟ تو اس بارے میں مشائخ کا اختلاف ہے، بعض نے استحباب کی نفی کی ہے، کیونکہ اللہ تعالی باطن کو جانتا ہے، اور بعض مشائخ نے فرمایا کہ یہ مستحب ہے اور یہی مختار قول ہے، اور اسی کی طرف امام محمد رحمہ اللہ تعالی نے کتاب المناسک کی ابتداء میں اشارہ فرمایا ہے۔ (المحيط البرهاني، ج 1، ص 28، ادارة التراث الاسلامي، بیروت)

زبان سے نیت بدعت حسنہ ہے۔ محدث کبیرملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

’’ نسلم انھا بدعۃ لکنھا مستحسنۃ استحبھا المشائخ للاستعانۃ علی استحضار النیۃ لمن احتاج الیھا وھو علیہ الصلاۃ والسلام واصحابہ لما کانو فی مقام الجمع والحضور لم یکونوا محتاجین علی استحضار المذکور‘‘

 ترجمہ: ہم تسلیم کرتے ہیں کہ زبان سے نیت کرنا بدعت ہے، لیکن یہ بدعت حسنہ ہے۔ مشائخ نے اسے مستحسن قرار دیا، کیونکہ یہ استحضار نیت میں معاون ہے اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان جمع و حضوری کے اس منصب پر فائز تھے کہ وہ زبان سے نیت قلبی کو حاضر کرنے کے محتاج نہیں تھے۔ (مرقاۃ المفاتیح، ج1، ص95، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)

بعض کتب میں زبان سے نیت کو سنت بھی کہا گیا ہے۔ چنانچہ محیط رضوی میں ہے:

’’وهي إرادة الصلاة، والإرادة عمل القلب فالنية بالقلب فرض وذكرها باللسان سنة‘‘

ترجمہ: نیت نماز کا ارادہ کرنا ہے اور ارادہ دل کا عمل ہے، تو دل سے نیت فرض ہے اور اس کو زبان سے ذکر کرنا سنت ہے۔ (المحيط الرضوي، ج 1، ص 219، مطبوعه دار الكتب العلميہ، بیروت)

اسے سنت سے تعبیر کرنے کی مختلف توجیہات کتبِ فقہ میں درج ہیں۔ چنانچہ امداد الفتاح میں ہے:

”فمن قال إن التلفظ بالنية سنة لم يرد به كونه سنة النبي بل سنة بعض المشائخ اختاروه لاختلاف الزمان وكثرة الشواغل على القلوب فيما بعد زمن الصحابة والتابعين“

ترجمہ: جس نے یہ کہا ہے کہ نیت کا تلفظ کرنا سنت ہے، تو انہوں نے اس سے نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سنت مراد نہیں لی، بلکہ بعض مشائخ کی سنت مراد لی ہے، جنہوں نے صحابہ وتابعین کے بعد زمانے کے مختلف ہونے اور دل پر بکثرت مشاغل کے وارد ہونے کی وجہ سے اس کو اختیار کیا ہے۔ (امداد الفتاح شرح نور الايضاح، ص 237، مطبوعہ كوئٹہ)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

” (وقيل سنة) يعني أحبه السلف أو سنه علماؤنا، إذ لم ينقل عن المصطفى ولا الصحابة ولا التابعين‘‘

ترجمہ: کہا گیا ہے کہ زبان سے نیت کے الفاظ کہنا سنت ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ اس کو اسلاف نے پسند کیا ہے یا یہ ہمارے علماء کی سنت ہے (سنت اصطلاحی اس لیے نہیں) کہ یہ مصطفی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے منقول نہیں اور نہ ہی صحابہ کرام سے اور نہ ہی تابعین علیہم الرضوان سے۔  (تنویر الابصار مع الدرالمختار، ج 2، ص 113، مطبوعہ پشاور)

علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ تعالی سنت کی توجیہ بیان فرماتے ہیں:

” وسنة باعتبار أنه طريقة حسنة لهم لا طريقة للنبي صلى اللہ عليه وسلم “

 ترجمہ: اور سنت اس اعتبار سےکہ یہ اسلاف کا اچھا طریقہ ہے، نہ یہ کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ (رد المحتارمع الدرالمختار، ج 2، ص 113 تا 114، مطبوعہ پشاور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Pin-7667

تاریخ اجراء: 21ربیع الثانی 1447ھ15اکتوبر 2025ء