
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا کوئی شخص اپنی بیوی کی موجودگی میں اس کی سوتیلی بہن سے نکاح کر سکتا ہے؟ یہاں سوتیلی بہن سے مراد یہ ہے کہ دونوں بہنوں کا باپ الگ الگ ہے، مگر ماں ایک ہی ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قوانین شرعیہ کے مطابق جس طرح دو سگی بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا حرام اور سخت گناہ کا کام ہے، یونہی دو سوتیلی یعنی ماں شریک یا باپ شریک بہنوں کو بھی بیک وقت نکاح میں جمع کرنا، ناجائز و حرام ہے۔ قرآن پاک میں ہے:
(وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ)
ترجمہ: اور دو بہنیں اکٹھی کرنا(حرام ہے۔) (پارہ 4، سورۃ النساء، آیت 23)
تفسیر ابن جزری میں ہے
و أن تجمعوا بين الأختين يقتضي تحريم الجمع بين الأختين سواء كانتا شقيقتين أو لأب أو لأم
ترجمہ: اور دو بہنیں اکٹھی کرنا(حرام ہے) آیت کریمہ کا یہ حصہ تقاضا کرتا ہے کہ دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام ہے چاہے وہ بہنیں سگی ہوں یا باپ شریک یا ماں شریک۔ (تفسیر ابن جزری، ج 1، ص 186، مطبوعہ: بیروت)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سوال ہوا کہ عالم حیات زوجہ میں حقیقی سالی یا رشتہ کی سالی سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟ تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: ”تاحیات زوجہ جب تک اسے طلاق ہو کر عدت نہ گزر جائے اس کی بہن سے جو اس کے باپ کے نطفے یا ماں کے پیٹ سے یا دودھ شریک ہے نکاح حرام ہے۔" (فتاوی رضویہ، ج 11، ص 314، 315، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو الفیضان مولانا عرفان احمد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4004
تاریخ اجراء: 15 محرم الحرام 1447ھ / 11 جولائی 2025ء