والد کی پھوپھی زاد بہن کی نواسی سے نکاح کا شرعی حکم

والد کی پھوپھی زاد بہن کی نواسی سے نکاح کاحکم

مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3646

تاریخ اجراء:09 رمضان المبارک 1446 ھ/ 10 مارچ 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرے والد صاحب  کی پھو پھی  زاد  بہن  کی نواسی سے  میرا رشتہ ہو سکتا ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   دریافت کردہ صورت میں آپ  کا رشتہ والد صاحب  کی پھو پھی  زاد  بہن  کی نواسی سے   ہو سکتا ہے، شرعا اس میں کوئی حرج  نہیں کہ شرعی اعتبار سے جب والد صاحب  کی پھو پھی  زاد  بہن  سے آپ کا نکاح ہو سکتا ہے   تو والد صاحب  کی پھوپھی  زاد  بہن  کی نواسی سے تو بدرجہ اولی نکاح جائز ہے، بشرطیکہ نکاح سے ممانعت کی  کوئی اور وجہ مثلا حرمت رضاعت یا حرمت مصاہرت وغیرہ قائم نہ ہو۔

   در مختار میں ہے ”و أما عمة عمة أمه و خالة خالة أبيه حلال كبنت عمه و عمته و خاله و خالته لقولہ {و أحل لكم ما وراء ذلكم} ترجمہ: اپنی ماں کی پھوپھو کی پھوپھو اور اپنے باپ کی خالہ  کی خالہ  سے نکاح کرنا جائز ہے جیساکہ اپنی چچی کی بیٹی، پھوپھو کی بیٹی، ماموں کی بیٹی اور خالہ کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہے اللہ تعالی کے اس فرمان کی وجہ سے "تم پر اور اُن کے سوا جو رہیں وہ تمہیں حلال ہیں"۔ (الدر المختار شرح تنوير الأبصار، جلد 3، صفحہ 30، دار الفکر، بیروت)

   کس سے  نکاح جائز ہے  اور کس  سے نہیں؟ اس حوالے سے  امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ  فرماتے ہیں: ”جزئیت کے بارے میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اپنی فرع اور اپنی اصل کتنی بعید ہو مطلقاً حرام ہے، اور اپنی اصل قریب کی فرع اگرچہ بعیدہو حرام ہے، اور اپنی اصل بعید کی فرع بعید حلال، اپنی فرع جیسے بیٹی پوتی نواسی کتنی ہی دور ہو اور اصل ماں دادی نانی کتنی ہی بلند ہو اور اصل قریب کی فرع یعنی اپنی ماں اور باپ کی اولاد یا اولادکی اولاد کتنی ہی بعید ہو اور اصل بعید کی فرع قریب جیسے اپنے دادا، پردادا، نانا، دادی، پردادی، نانی، پرنانی کی بیٹیاں یہ سب حرام ہیں، اور اصل بعید کی فرع بعید جیسے انہی اشخاص مذکورہ آخر کی پوتیاں نواسیاں جو اپنی اصل قریب کی نوع نہ ہوں حلال ہیں۔(فتاوی رضویہ، جلد 11، صفحہ 516، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم