
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:HAB-0440
تاریخ اجراء:17ربیع الثانی 1446ھ/21اکتوبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میری بڑی بہن کی عمر 58 سال تھی، انہوں نے میرے پاس 2 لاکھ روپے اور 1 زیور بطورِ امانت رکھوایا تھا تاکہ جب ان کی بیٹیوں کی شادی ہو، تو وہ اس کو استعمال کرسکیں، پھر اچانک ہارٹ اٹیک کے سبب ان کا انتقال ہوگیا، میں ان چیزوں کے متعلق ان سے کوئی بات نہ کرسکا، اب شریعت ان چیزوں کے متعلق کیا حکم دیتی ہے؟ یعنی میں یہ دو لاکھ روپے اور زیور ان کے شوہر و بچوں کو دوں یا مرحومہ بہن کے نام پر صدقہ کردوں؟ میری بہن پر کسی قسم کا کوئی قرضہ نہیں تھا، نہ ہی ابھی تک کسی نے کچھ مطالبہ کیا ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں جب آپ کی بہن کا انتقال ہوچکا، تو اب ان کی امانت رکھوائی ہوئی رقم و زیور مال ِ وراثت ہے،جو ان کے ورثا ءکا حق ہے، لہٰذا جب ورثاء معلوم ہیں، تو آپ اس رقم و زیور کو صدقہ نہیں کرسکتے، بلکہ آپ پر یہ زیور و رقم ان کے ورثاء کو دے دینا لازم ہے۔
شمس الائمہ سرخسی علیہ الرحمۃ مبسوط میں لکھتے ہیں :”إذا غاب رب الوديعة، ولا يدرى: أحي هو أو ميت، فعليه أن يمسكها حتى يعلم بموته؛ لأنه التزم حفظها له، فعليه الوفاء بما التزم، بخلاف اللقطة فإن مالكها غير معلوم عنده، فبعد التعريف: التصدق بها طريق لايصالها إليه، وهنا مالكها معلوم، فطريق إيصالها الحفظ إلى أن يحضر المالك، أو يتبين موته فيطلب وارثه ويدفعها إليه“ ترجمہ: جب ودیعت کا مالک غائب ہوجائے اور معلوم نہ ہو کہ وہ زندہ ہے یا مرگیا، تو مودَع پر لازم ہے کہ اس کی ودیعت کی حفاظت کرے، یہاں تک کہ مالک کی موت کا علم ہوجائے، کیونکہ اس نے مالک کے لیے اس کی ودیعت کی حفاظت کرنے کا التزام کیا ہے، تو اس پر لازم ہے کہ جس کا اس نے التزام کیا ہے اس کو پورا کرے برخلاف لقطہ کے کیونکہ لقطہ کا مالک اس کے نزدیک نا معلوم ہے، تو تشہیر کے بعد لقطہ کو صدقہ کرنا ہی مالک تک اس کو پہنچانے کا واحد راستہ ہے، جبکہ یہاں مالک معلوم ہے، تو ودیعت کو مالک تک پہنچانے کا راستہ یہی ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے یہاں تک کہ خود مالک حاضر ہوجائے یا اس کی موت واضح ہوجائے، تو اس کے وارث کو ڈھونڈ کر وہ ودیعت اس کو سپرد کردی جائے۔(المبسوط للسرخسی، ج11، ص130، دار المعرفہ، بیروت)
فتاوٰی عالمگیری میں ہے: ”غاب المودع ولا یدری حیاتہ ولا مماتہ یحفظھا ابدا حتی یعلم بموتہ وورثتہ کذا فی الوجیز للکردری ولا یتصدق بھا بخلاف اللقطۃ ، كذا في الفتاوى العتابيةوإذا مات رب الوديعة فالوارث خصم في طلب الوديعة، كذا في المبسوط.فان مات ولم یکن علیہ دین مستغرق یرد علی الورثۃ،کذا فی الوجیز للکردری“ ترجمہ: امانت رکھوانے والاغائب ہوگیااور اس کی زندگی و موت کا معلوم نہیں، تو مودع امانت کی حفاظت کرے گا، حتی کہ اس کی موت اور وارثوں کا علم ہو جائے، ایسا ہی وجیزِ کردری میں ہے اور امانت کو صدقہ نہیں کرسکتا برخلاف لقطہ کے، ایسا ہی فتاوٰی عتابیہ میں ہے اور جب ودیعت کا مالک مرجائے تو وارث ودیعت کا مطالبہ کرنے میں خصم ہے،جیساکہ مبسوط میں ہے، تو اگر مالک مرگیا اور اس پر دین مستغرق نہیں تھا،تو امانت اس کے ورثا کے حوالے کردے۔(الفتاوی الھندیۃ، ج4، ص354، دار الفکر، بیروت)
اسی طرح مجلۃ الاحکام کی شرح دررالحکام میں ہے: ”تعطی الودیعۃ عند وفاۃ المودع لوارثہ او لوصیہ و للوارث ان یطلب الودیعۃ من المستودع وان یدعی بھا لان الوارث قائم مقام المورث۔۔لا یجوز اعطاؤھا لمن لم یکن وارثا“ ترجمہ: امانت رکھوانے والے کی وفات کے بعد امانت اس کے وارث یا اس کے وصی کو دی جائے گی اور وارث کو یہ حق حاصل ہے کہ جس کے پاس امانت رکھی ہو اس سے امانت کا مطالبہ کرے اور اس کا دعوی کرے، کیونکہ وارث مورث کے قائم مقام ہے اور جو وارث نہ ہو ودیعت اس کو دینا جائز نہیں۔(درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام، المادۃ802، ج2، صفحہ310، درالکتب العلمیۃ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے:”جب موت کا علم ہوجائے اور ورثہ بھی معلوم ہیں، ورثہ کو دے دے، معلوم نہ ہونے کی صورت میں ودیعت کو صدقہ نہیں کرسکتا۔۔ ودیعت رکھنے والا مرگیا اور اس پر دین مستغرق نہ ہو تو ودیعت ورثہ کو دے دے۔“(بھارِ شریعت، ج3، ح14، صفحہ38، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم