Kya Committee Admin Committee Ke Paise Istemal Karskta Hai?

کمیٹی ایڈمن کمیٹی کی رقم اپنے استعمال میں لا سکتا ہے؟

مجیب:ابوالفیضان عرفان احمدمدنی

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9184

تاریخ اجراء:23جمادی الاولیٰ 1446ھ/26نومبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ جس شخص کے پاس کمیٹی کی رقم جمع ہو،کیاوہ کمیٹی کی رقم کو اپنے ذاتی استعمال میں لاسکتاہے؟جبکہ کمیٹی نکلنے  کے وقت تمام  استعمال کی ہوئی رقم کمیٹی کی رقم میں شامل کردے  گا۔اس بارے میں تفصیلاً رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال کاجواب جاننے کے لیے پہلے  یہ جاننا ضروری ہے کہ کمیٹی ایڈمن یعنی رقم جمع کرنے والے کے پاس کمیٹی کی جمع شدہ رقم کی حیثیت کیا ہے؟یہ حیثیت دو صورتوں میں متعین ہوتی ہے:

   (1)قرض (2)امانت

   رقم کی حیثیت کی وضاحت:

   قرض کی صورت:اگرکمیٹی ممبران کی طرف سےایڈمن کوصراحتاًیادلالتاًیہ اجازت دی گئی ہوکہ وہ جمع شدہ رقم کواپنے استعمال میں لاسکتاہے،تو ایسی صورت میں یہ رقم قرض شمارہوگی۔

   امانت کی صورت:اگرصراحتاً یہ طے ہو کہ جمع شدہ رقم بعینہ محفوظ رکھی جائے گی اور ایڈمن  اسے اپنے استعمال میں نہیں لائے گا، تو یہ رقم امانت شمار ہوگی۔

   عرف کا اعتبار:اگر امانت یا قرض ہونے کی صراحت نہ کی گئی ہوتوشریعتِ مطہرہ  کا اصول یہ ہے کہ   پھرعرف کو دیکھا جائے گا۔

·       اگرعرف یہ ہوکہ لوگ رقم کواستعمال کی اجازت کے ساتھ جمع کرواتے ہیں،تو رقم قرض شمار ہوگی، جیساکہ عام طور پر مارکیٹوں میں چلنے والی کمیٹیاں۔

·       اگرعرف یہ ہو کہ رقم بعینہٖ محفوظ رکھی جاتی ہے،جیسا کہ گھروں میں چلنے والی بعض چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں،توایسی صورت میں یہ رقم امانت ہوگی۔

تمہیدی گفتگوسمجھنے کے بعد نفسِ مسئلہ کاجواب یہ ہے کہ:

   اگرایڈمن  کے پاس کمیٹی کی جمع شدہ رقم کی حیثیت قرض کی  ہویاوہاں کاعرف یہ ہوکہ لوگ استعمال کی اجازت کے ساتھ جمع کرواتے ہوں توایسی صورت میں  ایڈمن کمیٹی کی رقم ذاتی استعمال میں خرچ کرسکتاہےاورقرض خواہ اس سے مطالبہ کاپوراحق رکھتاہے  اورقرض   میں مطالبہ کے  وقت مثلی چیز کواداکرنالازم ہوتاہے،لہٰذاممبران  کے مطالبہ کی صورت میں ایڈمن پراتنی رقم واپس  کرنالازم  ہوگا۔

   اوراگرایڈمن کے پاس کمیٹی کی رقم  بطورِ امانت  ہویاوہاں کاعرف یہ ہوکہ لوگ بعینہٖ وہی رقم محفوظ رکھنے کے لیے جمع کرواتے ہوں ، جیساکہ بعض گھروں میں  ڈالی جانے والی کمیٹیوں میں ایساہوتاہے،توایسی صورت میں ایڈمن کوکمیٹی کی رقم خرچ کرنے کی اجازت نہیں ،اگر خرچ کرے گا،تو امانت میں خیانت  کرنے کی وجہ سے  اس پر تاوان لازم ہوگا۔

   قرض کی تعریف کے متعلق تنویرالابصار،درمختاراورردالمحتارمیں ہے:ماتعطیہ من مثلی لتتقاضاہ(کان علیہ أن یقول لتتقاضی مثلہ)خرج نحو ودیعۃ وھبۃ أی خرج ودیعۃ وھبۃ(ونحوھماکعاریۃ وصدقۃ، لأنہ یجب ردعین الودیعۃ والعاریۃ ولایجب ردشیء فی الھبۃ والصدقۃ)‘‘ یعنی شرعاًقرض یہ ہے کہ آپ کسی کومثلی مال(رقم،غلہ،وغیرہ)اس طورپردیں کہ بعدمیں آپ اسی کی مثل واپس لیں گے،اس تعریف سے ودیعت (امانت)، ہبہ(گفٹ)، عاریت اورصدقہ نکل گئے،کیونکہ ودیعت اورعاریت میں توبعینہ چیزکولوٹاناواجب ہوتا ہے اورہبہ وصدقہ میں کچھ بھی لوٹانا واجب نہیں ہوتا۔(رد المحتار علی الدرمختار،کتاب البیوع ،فصل فی القرض، جلد7، صفحہ 406-407،مطبوعہ کوئٹہ)

                                                                                         امانت کی تعریف درمختارمیں یوں بیان کی گئی ہے:تسلیط الغیر علی حفظ مالہ صریحا أو دلالۃ۔۔۔ (و رکنھا الإیجاب صریحا)کأودعتک ۔۔۔(أو فعلا) کما لو وضع ثوبہ بین یدی رجل ولم یقل شیئا فھو إیداع (والقبول من المودع صریحا) کقبلت (أو دلالۃ) کما لو سکت عند وضعہ فإنہ قبول دلالۃ کوضع ثیابہ فی حمام بمرأی من الثیابی‘‘ملتقطاًترجمہ:کسی کو صراحتا یا دلالۃً اپنے مال کی حفاظت پر مسلط کرناودیعت کہلاتا ہے۔ اس کا رکن ایجاب ہے ،خواہ وہ صراحتاہو،جیسے یوں کہاکہ میں نے تمہیں ودیعت دی یاعمل سے ہو،جیسے کسی نے اپناکپڑادوسرے کے سامنے رکھ دیااورکچھ نہ کہا،تویہ ودیعت رکھناہے اورودیعت کادوسرارکن مودع(جس کی حفاظت میں چیزدی گئی)کی طرف سے قبول کرناہے،خواہ قبول کرناصراحتاً ہو،جیسے میں نے قبول کیایادلالۃً ہو،جیسے کسی نے اس کے سامنے چیزرکھی اوریہ خاموش رہا،تویہ خاموش رہنادلالۃً  قبول ہے، جیسے حمام میں جامہ دار (لباس کے  ایڈمن)کے سامنے کپڑے رکھنا۔(درمختار مع ردالمحتار، کتاب الایداع، جلد8، صفحہ 526، مطبوعہ کوئٹہ)

   امانت میں خیانت  کرنا،منافقت کی علامت ہے چنانچہ حدیث پاک میں ہے:”ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:”آیۃ المنافق ثلاث اذا حدث کذب واذا وعد اخلف واذا ائتمن خان“ ترجمہ:بیشک نبی کریم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:منافق کی تین علامتیں ہیں: (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے(2)جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے(3)جب امانت اس کے سپر د کی جائے تو خیانت کرے۔(صحیح مسلم،کتاب الایمان، جلد01، صفحہ56، مطبوعہ کراچی)

   اورامانت امین کی تعدی سے ہلاک ہوجائے یاامین خود ہی امانت  کوہلاک کردے ،تووہ غاصب ہے  اوراس پرتاوان لازم ہوجاتا ہے، جیساکہ  فتاوی رضویہ میں ہے:” اگر دعوٰی استہلاک کاتھا یعنی اتنا زیوراسے عاریۃً دیاتھااس نے تلف کردیا تو اب یہ بعینہٖ دعوی غصب ہے اوراس کاحکم وہ ہے جواوپرمذکورہوا:وذٰلک لان الامانات تنقلب مضمونات بالتعدی والامین یعود بہ غاصبا،یعنی یہ تاوان اس لئے ہےکہ امانتیں تعدی کی وجہ سےمضمون ہوجاتی ہیں اورامین اس تعدی کی وجہ سے غاصب ہوجاتاہے۔“(فتاوی رضویہ،جلد18،صفحہ411،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور)

 

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم