
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
ایک مسئلہ پوچھنا تھاکہ اکثر گھروں میں ایسا ہوتا ہے کہ کسی کا آٹا یا کوئی اور چیز ختم ہو جائے تو وہ ساتھ والے گھر سے لے آتے ہیں اور ساتھ یہ بول آتے ہیں کہ جب ہمارے پاس یہ چیز آ جائے گی تو ہم آپ کو واپس کر دیں گے۔ جب ہماری چیز آ گئی تو اب ذہن میں یہ آیاکہ انہوں نے ہماری مدد کی تھی، لہذا جو بھی لیا مثلا آٹا تو زیادہ ہی دے آتے ہیں، تو کیا یہ سود ہوگا یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قوانین شرعیہ کی رو سے قرض واپس کرتے وقت مقروض اگر قرض سے زیادہ لوٹائے اور یہ زیادہ دینا عقد میں صراحۃ یا دلالۃ کسی طرح شرط نہ ہو، بلکہ مقروض بغیرکسی شرط کے صرف اپنی خوشی سے زیادہ دے، تو شرعاً یہ سود نہیں اور اس کا لینا، جائز و حلال ہے اور دینا، نہ صرف جائز ہے بلکہ اچھے اخلاق میں سے ہے۔ لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر معاملہ اسی طرح ہے کہ پہلے سے طے نہیں ہوتا کہ واپسی زیادہ کی جائے گی، تو آپ کا اپنی خوشی سے کچھ زیادہ دینا اور لینے والے کا لینا جائز ہے۔
بغیر شرط کے اپنی طرف سے زیادہ دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے ثابت ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے
عن جابر بن عبد الله قال:أتيت النبي صلی اللہ علیہ و سلم۔۔۔ و كان لي عليه دَين، فقضاني و زادني
ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا، میرا کچھ قرض نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کےذمے پر تھا، تو آپ نے میرا قرض لوٹایا اور مجھے ( میرے قرض سے) زیادہ دیا۔(صحیح البخاری، جلد 1، صفحہ 96، حدیث: 443، مطبوعہ مصر)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے
من استقرض شيئا فرد أحسن أو أكثر منه من غير شرطه كان محسنا و يحل ذلك للمقرض ۔۔۔ و ليس هو من قرض جر منفعة; لأن المنهي عنه ما كان مشروطا في عقد القرض
ترجمہ: جو کسی سے قرض لے اور واپسی میں اس سے بہتر یا زیادہ واپس کرے جبکہ اس کی پہلے سے شرط نہ ہو تو ایسا کرنے والا نیکی کرنے والا ہے اور قرض دینے والے کے لیے بھی یہ زیادتی لیناجائز ہے۔ یہ وہ قرض نہیں جو منفعت لایا کہ ممنوع وہ منفعت ہے جو عقدِ قرض میں مشروط ہو۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 5، صفحہ 1954، دار الفكر، بیروت)
در مختار میں ہے
ان قضاہ اجود بلا شرط جاز
ترجمہ: اگر قرض کی ادائیگی میں بغیر شرط کے اچھی چیز واپس کی تو جائز ہے۔ (الدر المختار، صفحہ 430، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے ”واپسی قرض میں اُس چیز کی مثل دینی ہوگی ، جو لی ہے۔ نہ اُس سے بہتر، نہ کمتر۔ ہاں اگر بہتر ادا کرتا ہے اور اس کی شرط نہ تھی، تو جائز ہے، دائن (قرض دینے والا) اُس کولے سکتا ہے۔ یوہیں جتنا لیا ہے ادا کے وقت اُس سے زیادہ دیتا ہے مگر اس کی شرط نہ تھی، یہ بھی جائز ہے۔“ (بہار شریعت، جلد 2، حصہ 11، صفحہ 759، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4096
تاریخ اجراء: 10 صفر المظفر 1447ھ / 05 اگست 2025ء