سود کی تعریف اور وضاحت

سود کی تعریف و وضاحت

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ سود کیا ہے، اس کی کیا تعریف ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

سود اس اضافے کو کہتے ہیں جو عقد معاوضہ میں عوض سے خالی ہوتاہے اور معاہدہ میں اس کا استحقاق (مستحق ہونا) قرار پایا ہو، یعنی عقدمعاوضہ میں عقد کرتے وقت ہی اگر مشروط یا معروف نفع مقرر ہو، جو عوض سے خالی ہو، تو ایسا نفع سود ہوتا ہے، مثلاً اگر قرض دے کر اس پر نفع کی شرط کی جائے تو وہاں نفع سود ہوگا کیونکہ قرض جتنا دیا تھا، اتنی رقم واپس لینا اصل عقد تھا لیکن مشروط کردیا گیا کہ نفع بھی لیا جائے گا تو وہ سود کی شکل اختیار کر گیا۔

سود کی تعریف کے متعلق ہدایہ میں ہے

الربا هو الفضل المستحق لأحد المتعاقدين في المعاوضة الخالي عن عوض شرط فيه

ترجمہ: سود وہ زیادتی ہے جس کا عقد معاوضہ میں عاقدین میں سے کوئی بلا عوض مستحق ہو، اور اس کو عقد معاوضہ میں ہی مشروط کیا گیا ہو۔ (الہدایۃ، جلد 3، صفحہ 61، دار احیاء التراث، العربی)

اسی طرح فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "وہ زیادت کہ عوض سے خالی ہو اور معاہدہ میں اس کا استحقاق قرار پایا ہو سود ہے مثلاً سو روپے قرض دئے اور یہ ٹھہرا لیا کہ پیسہ اوپر سولے گا تویہ پیسہ عوض شرعی سے خالی ہے لہٰذا سود حرام ہے۔" (فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 326، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4081

تاریخ اجراء: 04 صفر المظفر 1447ھ / 30 جولائی 2025ء