Soodi Raqam Khane Peene Ki Ashiya Ke Ilawa Kaam Mein Kharch Karna

 

سودی رقم کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ کام میں خرچ کرنا

مجیب:مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1965

تاریخ اجراء:18ربیع الثانی1446ھ/22اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا سود میں حاصل ہونے والی رقم ہم کھانے پینے کی اشیا میں خرچ کرنے کے علاوہ کسی اور چیز میں خرچ سکتے ہیں ؟ جیسے بجلی و پانی  کا بل،گھر میں استعمال ہونے والی اشیا ، گاڑی کے لئے پیٹرول ، گھر کا ٹیکس ، گھر میں گیزر وغیرہ لگوانے جیسے کاموں میں یہ رقم لگا سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی نہیں! سودی رقم  کسی بھی طرح ذاتی استعمال  میں نہیں لاسکتے ،  کہ سود ناجائز و حرام اور اس سے حاصل ہونے والا مال، مالِ حرام ہوتا ہے  جسے ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ،نیز سودی معاملہ ختم کر کے اس سے توبہ کرنا اور توبہ کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس حرام مال سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں کہ یا تو ڈائریکٹ ہی اس مال کو بغیر ثواب کی نیت کے کسی شرعی فقیر یعنی مستحق زکوٰۃ کو دے دیا جائےیا جس سے وہ مال لیا ہو، اسے واپس کر دیں اور اگر وہ زندہ نہ ہو تو اس کے ورثاء کو دے دیں اوریہی بہترہے ۔

   سودی رقم کے متعلق حکم شرع کی وضاحت کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  نےفرمایا:”یہی حکم سود وغیرہ عقودِ فاسدہ کاہے فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں جس سے لیا بالخصوص انہیں واپس کرنا فرض نہیں بلکہ اسے اختیار ہے کہ اسے واپس دے خواہ ابتداءً تصدق کردے۔۔۔ہاں جس سے لیا انہیں یا ان کے ورثہ کو دینا یہاں بھی اولیٰ ہے۔“(فتاوی رضویہ۔ملتقطاً،جلد23،صفحہ541،542،رضافاونڈیشن،لاہور)

   ایک اور مقام پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ایک سوال میں سود کا پیسہ صدقات و خیرات بالخصوص تعمیر مسجد میں لگانے کے متعلق سوال ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً ارشاد فرمایا:”سود حرامِ قطعی ہے اور اس کی آمدنی حرامِ قطعی اور خبیثِ محض ہے ۔۔۔زر ِحرام والے کو یہ حکم ہوتا ہے کہ جس سے لیا اسے واپس دے وہ نہ رہا اس کے وارثوں کو دے پتہ نہ چلے تو فقراء پر تصدق کرے یہ تصدق بطور تبرع واحسان و خیرات نہیں بلکہ اس لئے کہ مالِ خبیث میں اسے تصرف حرام ہے اور اس کا پتہ نہیں جسے واپس دیا جاتا لہٰذا دفع خبث وتکمیل توبہ کے لئے فقراء کودینا ضرور ہوا اس غرض کے لئے جومال دفع کیا جائے وہ مساجد وغیرہ امور خیر میں صرف کہ خبیث ہے اور یہ مواضع خبیث کا مصرف نہیں ، ہاں فقیر اگر لے کر بعدِ قبول و قبضہ اپنی طرف سے مسجد میں دے دے تو مضائقہ نہیں ۔“ ( فتاوی رضویہ۔ملتقطاً،جلد 17،صفحہ 352 ،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم