ایام تشریق کے پانچ دن روزہ منع ہے یا قربانی کے تین دن؟

ایام تشریق کے پانچ دن روزہ رکھنا منع ہے یا صرف قربانی کے تین دن ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ کیا ایام تشریق میں بھی روزہ رکھنے کی ممانعت ہے یا صرف ایام  نحر میں روزہ رکھنا منع ہے؟ اگر ایام  تشریق میں بھی  روزہ رکھنے کی ممانعت ہے ،تو نو(9) ذوالحجہ  کا روزہ کیوں رکھا جاتا ہے ،حالانکہ تکبیر تشریق تو   نو(9) ذو الحجہ کی فجر سے شروع ہوجاتی ہے،اورنو ذو الحجہ کی فجر سےتیرہ ذو الحجہ کی عصر تک  ان پانچ  دنوں میں پڑھی جانے والی تکبیر کو تکبیر تشریق کہتے ہیں،تو اس کی کیا وجہ اور مناسبت ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

ایام نحر تین دن ہیں یعنی دس،گیارہ اور بارہ ذو الحجہ،اور  ایام تشریق بھی تین دن ہیں، یعنی گیارہ ،بارہ اور تیرہ ذو الحجہ۔یہ ٹوٹل چار دن ہوئے جس میں سے  دس ذو الحجہ یوم نحر ہے  ، گیارہ ،بارہ ذو الحجہ یوم نحر اور یوم  تشریق دونوں  ہیں،جبکہ تیرہ ذو الحجہ صرف یوم تشریق ہے۔شرعی اعتبار سے عید الفطر یعنی یکم شوال  والے دن  اور ایام نحر اور  ایام تشریق کے دنوں ،یعنی ٹوٹل پانچ  دِنوں  میں روزہ رکھنا  مکروہ تحریمی  ناجائز و گناہ ہے، کیونکہ یہ   سب دن  اللہ عزوجل کی طرف سے بندوں کی دعوت کے دن  ہیں،اِن دِنوں میں روزہ رکھنے کی احادیث مبارکہ میں ممانعت فرمائی گئی ہے ۔نو(9) ذو الحجہ کا دن  چونکہ نہ یوم نحر ہے اور نہ  یوم تشریق ،لہذا اس دن روزہ رکھنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے،بلکہ احادیث مبارکہ میں  تو نو ذو الحجہ کے روزے کی فضیلت آئی ہے۔ایک حدیث  پاک میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  کہ عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ  وہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرمادے گا۔

رہی یہ  بات کہ تکبیر تشریق کاآغاز تو  نو(9) ذو الحجہ کی فجر سے ہی ہوجاتا ہے  اور اس تکبیر کو تکبیراتِ تشریق بھی  کہتے ہیں،تو اس کی کیا وجہ اور مناسبت ہے  ؟تو جواب یہ ہے  کہ تکبیر تشریق کو  تکبیر تشریق اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ ایام تشریق میں پڑھی جاتی ہے ۔ پانچ دنوں یعنی  نو(9) ذو الحجہ کی فجر سے  تیرہ (13) ذو الحجہ کی عصر تک ایام تشریق تو اگرچہ تین دن ہی ہیں ،نو ذو الحجہ اور دس ذوالحجہ کا دن ایام تشریق نہیں، لیکن تغلیباً یعنی غلبہ دینے کے طور پران  سب دنوں  کو ایام تشریق کہہ کران میں  پڑھی جانے والی تکبیرات کو تکبیراتِ تشریق کہہ دیا گیا ہے ، تو  یہ صرف تغلیباً ہے،اس سے نو ذو الحجہ کا ایام تشریق میں سے  ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔تغلیباً  یعنی غلبے کے طور پر کسی کو کچھ نام دے دینا یہ شرع میں معروف   ہے جیسا کہ’’ تسبیح فاطمہ‘‘ کو تسبیح کا نام دیا گیا،حالانکہ اس میں تحمید(الحمد للہ)اور تکبیر(اللہ اکبر )بھی ہے،مگرتغلیباً  یعنی غلبے کے طور پر سب کو تسبیحات کہہ دیا گیا۔یا پھر  یہ وجہ ہے  کہ    لفظ ِتشریق  کا اِطلاق جس طرح  تین  دنوں (دس ،گیارہ  اور بارہ ذو الحجہ) پر ہوتا ہے جن میں اہل عرب گوشت سکھاتے تھے ،اسی طرح  لغت میں  اس کا اِطلاق    اُن تکبیروں  پر بھی ہوتا ہے جو ان  پانچ   دنوں  (نو ذو الحجہ کی فجر سے تیرہ ذو الحجہ کی عصر تک) کہی جاتی ہیں،لہذا اس اعتبار سے تشریق کا لفظ تکبیر کی وضاحت ہوجائے گااور معنی یہ  ہوگا کہ    وہ تکبیر جو  تشریق ہے۔

سال کے پانچ دنوں یعنی  عید الفطر،عید الاضحیٰ اور ایام تشریق  میں روزہ رکھنا جائز نہیں ،چنانچہ مسند ابی یعلی کی روایت ہے:

’’عن أنس،  أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم نهى عن صوم خمسة أيام من السنة: يوم الفطر، ويوم النحر، وثلاثة أيام التشريق ‘‘

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سال کے پانچ دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا: عید الفطر کا دن، عید الاضحیٰ (دس ذی الحجہ) کا دن، اور تین د ن ایامِ تشریق کے۔ (مسند ابی یعلی،جلد5،صفحہ292،مطبوعہ دمشق)

ایام تشریق کھانے پینے اور رب تعالیٰ کے اپنے  بندوں کی دعوت  کے دن ہیں ،چنانچہ مسند احمد کی حدیث مبارک ہے:

’’عن نبيشة الهذلي، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: أيام التشريق أيام أكل، وشرب، وذكر اللہ‘‘

ترجمہ:حضرت نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایامِ تشریق کھانے، پینے اور اللہ کے ذکر کے دن ہیں۔(مسند احمد،جلد34،صفحہ322،مؤسسة الرسالة،بیروت)

علامہ ملا علی قاری علیہ الرحمۃ مرقاۃ المفاتیح میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’وهي ثلاثة أيام تلي عيد النحر، كانوا يشرقون فيها لحوم الأضاحي أي يقددونها ويبسطونها في الشمس ليجف، لأن لحوم الأضاحي كانت تشرق فيها بمنى، وقيل: سميت به لأن الهدي والضحايا لا تنحر حتى تشرق الشمس، أي تطلع كذا في النهاية " «أيام أكل وشرب» " وفيه تغليب لأن يوم النحر أيضا يوم أكل وشرب، بل والأصل، والبقية أتباعه ‘‘

ترجمہ:اور یہ تین دن ہیں جو عیدِ قربان(دس ذو الحجہ) کے بعد آتے ہیں۔ ان دنوں میں لوگ قربانی کے گوشت کو خشک کرنے کے لیے اسے کاٹ کر دھوپ میں پھیلاتے تھے، کیونکہ قربانی کا گوشت منیٰ میں دھوپ میں سکھایا جاتا تھا۔ اور کہا گیا ہے  کہ ان دنوں کو "ایامِ تشریق" اس لیے کہا جاتا ہے کہ قربانی اور ہدی کے جانوروں کو سورج طلوع ہونے کے بعد ہی ذبح کیا جاتا تھا،یونہی نہایہ میں ہے۔ ایامِ اکل و شرب (یعنی کھانے پینے کے دن،ایام تشریق کو کہنا) ،تو یہ غلبہ دینا ہے (یعنی  زیادہ دن ایام تشریق  کے ہیں، تو غلبےکے طور پر اس کو ایام تشریق کے ساتھ کہہ دیا گیا) کیونکہ یوم النحر (دس  ذی الحجہ) بھی کھانے پینے کا دن ہے، بلکہ وہی اصل ہے اور باقی ایام اس کے تابع ہیں۔ (مرقاۃ المفاتیح،جلد4،صفحہ1418،دار الفكر، بيروت)

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ مراة المناجيح  میں فرماتے ہیں:’’بقرعید کے تین دن بعد تک یعنی ۱۳ تاریخ تک اہلِ عرب قربانی کے گوشت سکھاتے تھے ،اس لیے ان دنوں کو تشریق یعنی سکھانے اور دھوپ دکھانے کا زمانہ کہا جاتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ یہ چار دن بندوں کی مہمانی کے ہیں،جن میں رب تعالیٰ میزبان، بندے مہمان (ہیں) اس لیے ان دنوں میں روزہ رکھنا گویا رب تعالیٰ کی دعوت سے انکار،اس زمانہ میں خوب کھاؤ خوب پیئو اور خوب ا کا ذکر کرو۔ ‘‘(مراۃ المناجیح،جلد3،صفحہ202،نعیمی کتب خانہ،گجرات)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

’’كره تحريما "صوم العيدين" الفطر والنحر للإعراض عن ضيافة الله ومخالفة الأمر "و" منه صوم "أيام التشريق" لورود النهي عن صيامها‘‘

ترجمہ:عیدین (عید الفطر اور عید الاضحیٰ) کا روزہ ،اللہ کی مہمان نوازی سے منہ موڑنے اور اس کے حکم کی مخالفت  کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہے ۔اور اسی طرح ایامِ تشریق کے روزے بھی مکروہ ہیں، کیونکہ ان کے روزے سے متعلق ممانعت وارد ہوئی ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،جلد1،صفحہ640،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

ایام تشریق دس،گیارہ اور بارہ ذو الحجہ کے دنوں کو کہتے ہیں ،چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے:

’’أيام التشريق ثلاثة أيام الحادي عشر والثاني عشر والثالث عشر من ذي الحجة‘‘

ترجمہ:ایام تشریق تین دن ہیں،گیارہ،بارہ اور تیرہ ذی الحجہ۔  (تبیین الحقائق،جلد2،صفحہ34،مطبوعہ قاھرۃ)

ہدایہ میں ہے:

’’أيام النحر ثلاثة، وأيام التشريق ثلاثة، والكل يمضي بأربعة أولها نحر لا غير وآخرها تشريق لا غير، والمتوسطان نحر وتشريق ‘‘

ترجمہ:قربانی کے دن تین ہیں، اور تشریق کے دن بھی تین ہیں، اور سب مل کر چار بنتے ہیں: پہلا دن صرف قربانی کا ہے، آخری دن صرف تشریق کا ہے، اور درمیان کے دو دن قربانی اور تشریق دونوں کے لیے ہیں۔ (الھدایہ،جلد4،صفحہ357،دار احياء التراث العربي ، بيروت)

عرفہ یعنی نو ذو الحجہ کے روزے کی فضیلت سے متعلق سنن ابن ماجہ کی حدیث پاک ہے:

’’عن أبي قتادة، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: «صيام يوم عرفة، إني أحتسب على اللہ أن يكفر السنة التي قبله، والتي بعده‘‘

ترجمہ:حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں، میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بن جائے۔(سنن ابن ماجہ ،جلد1،صفحہ551،رقم الحدیث:1730، دار إحياء الكتب العربية)

لغت میں تشریق کا مطلب تکبیر کہنا بھی ہے ،چنانچہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

’’(قوله: ويجب تكبير التشريق) نقل في الصحاح وغيره أن التشريق تقديد اللحم وبه سميت الأيام الثلاثة بعد يوم النحر. ونقل الخليل بن أحمد والنضر بن شميل عن أهل اللغة أنه التكبير فكان مشتركا بينهما والمراد هنا الثاني والإضافة فيه بيانية أي التكبير الذي هو التشريق ‘‘

ترجمہ:(ان کا قول کہ تکبیر تشریق واجب ہے)صحاح اور دیگر کتب میں نقل کیا گیا ہے کہ تشریق کا مطلب گوشت کو خشک کرنا ہے، اور اسی وجہ سے یوم النحر کے بعد آنے والے تین دنوں کو "ایامِ تشریق" کہا جاتا ہے۔خلیل بن احمد اور نضر بن شمیل نے اہلِ لغت سے نقل کیا ہے کہ تشریق کا مطلب تکبیر کہنا ہے، لہٰذا یہ لفظ دونوں معانی میں مشترک ہے، لیکن یہاں مراد دوسرا معنی (یعنی تکبیر کہنا) ہے۔اور اس میں اضافت بیانیہ ہے، یعنی تکبیر تو اس سے مراد تشریق ہے۔ (رد المحتار علی الدرالمختار،جلد2،صفحہ،دار المعرفہ،بیروت)

’’فتاوی تا ج  الشریعہ‘‘ میں حضرت مفتی محمد  اختر رضا خان   علیہ الرحمۃ سے  سوال ہوا کہ تکبیر تشریق اور ایام تشریق(لفظ تشریق دونوں میں موجود ہے ) میں کیا مناسبت ہے؟

 آپ علیہ الرحمۃ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:’’تکبیر ِمعروف، ایام تشریق میں کہی جاتی ہے، اس لیے تکبیر کو تکبیر تشریق کہتے ہیں اور تشریق لغۃ دھوپ میں گوشت سکھانا ہے اور اس مناسبت سے یوم نحر کے بعد تین دن ایام تشریق کہلائے اور یوم عرفہ و و یوم نحر سمیت پانچوں دن کو ایام تشریق کہنا تغلیباً ہے،یا بایں وجہ کہ تشریق کا اطلاق لغۃ ًاس تکبیر پر بھی ہوتا ہے جو ان ایام میں کہی جاتی ہے۔‘‘ (فتاوی تاج الشریعہ، جلد4، صفحہ295،294،شبیر برادرز،لاھور)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

’’(التسبيحات) لعل مراده التسبيح والتحميد والتكبير ثلاثا وثلاثين في كل وأطلق على الجميع تسبيحا تغليبا لكونه سابقا‘‘

ترجمہ:تسبیحات سے مراد شاید  تسبیح (سبحان اللہ)، تحمید (الحمد للہ) اور تکبیر (اللہ اکبر) ہر ایک کو تینتیس(33) بارکہنا ہے، اور سب پر "تسبیح" کا اطلاق غالباً اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ سب سے پہلے آتی ہے۔ (رد المحتار علی الدرالمحتار،جلد5،صفحہ541،دار المعرفۃ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-675

تاریخ اجراء: 24 شعبان المعظم6144ھ/25 فروری 2025ء