ایک ملک میں صدقہ فطر دے کر دوسرے ملک عید کی تو صدقہ فطر کا حکم

 

ایک ملک میں صدقہ فطر دے کر دوسرے ملک عید کی اور دونوں کے صدقہ فطر کی قیمت میں فرق ہو، تو حکم

مجیب:ابو حمزہ محمد حسان عطاری

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:HAB-540

تاریخ اجراء: 16 رمضان 1446ھ/17 مارچ 2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے رمضان میں اپنا صدقۂ فطر پاکستان میں ادا کردیا ، اور پھر وہ عمرہ کے لیے چلا گیا عید کے دن وہ مدینہ پاک میں ہی تھا ،تو کیا اسے وہاں کے لحاظ سے  صدقۂ فطر کی رقم میں جو فرق آرہا ہے ،اسے ادا کرنا ہوگا؟ مثلاً: پاکستان میں 240 ادا کیا ہے اور وہاں 500 بنتا ہو ،تو کیا 260 روپے اسے مزید دینے ہوں گے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں رقم کا جو فرق آرہا ہے،  اسے ادا کرنا اس پر لازم ہے ، صدقہ فطر عید  کی صبح صادق ہونے پر واجب ہوتا ہے اور چونکہ صدقہ فطر مثلِ زکوٰۃ و قربانی مال پر نہیں،بلکہ مؤدی یعنی ادا کرنے والے پر واجب ہوتا ہے، لیکن صدقہ فطر جلدی ادا کرنا زکوٰۃ جلدی ادا کرنے کی طرح ہے اور عمومی حالات میں صدقہ فطر قیمت سے ادا کرنا افضل ہے اور جب صدقہ فطر منصوص علیہ اشیاء یعنی : گندم ، جَو، خُر ما اور کشمش کے بجائے قیمت سے ادا کیا جائے، تو امام اعظم رضی اللہ عنہ کے مذہب کے مطابق اس کی قیمت میں روز وجوب کا اعتبار ہے اور یہی مفتیٰ بہٖ مذہب ہے، لہٰذا اگر صدقہ فطر کسی ملک میں ادا کرنے کے بعد دوسرے ملک میں گیا تو روز وجوب یعنی عید الفطر کی صبح صادق کے وقت جہاں مؤدی ہوگا اس وقت جتنا صدقہ فطر اس پر واجب ہوگا وہ ادا کرنا لازم ہے۔ اب جتنا پہلے ادا کیا اگر  اس سے زیادہ واجب ہوا ہے تو جتنی زیادتی ہے اتنی ادا کرنا اس پر مفتی بہ مذہب میں واجب ہے۔

   صدقہ فطر وجوب سے قبل ادا کرنا ،جائز ہے، چنانچہ محیط برہانی میں ہے:”یجوز تعجیلھا قبل یوم الفطر بیوم او یومین فی روایۃ الکرخی وعن ابی حنیفۃ لسنۃ او سنتین“ ترجمہ:امام کرخی رحمہ اللہ  کی روایت کے مطابق صدقۂ فطر عید سے ایک یا دو دن پہلے ادا کرنا ، جائز ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ  کے نزدیک ایک یا دو سال پہلے ادا کرنا ، جائز ہے۔(محیط برهانی،كتاب الصوم، ج2،ص 589،مطبوعہ کوئٹہ )

   بہار شریعت میں ہے:”عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہوتا ہے……فطرہ کا مقدم کرنا مطلقاً جائز ہے جبکہ وہ شخص موجود ہو، جس کی طرف سے ادا کرتا ہو اگرچہ رمضان سے پیشتر ادا کر دے اور اگر فطرہ ادا کرتے وقت مالک نصاب نہ تھا پھر ہوگیا تو فطرہ صحیح ہے اور بہتر یہ ہے کہ عید کی صبح صادق ہونے کے بعد اور عید گاہ جانے سے پہلے ادا کر دے۔“(بھار شریعت،ج01،حصہ 5،ص935،939، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   صدقہ فطر میں مثل قربانی و زکوۃ مکان مال کا اعتبار نہیں بلکہ مکان فاعل و مؤدی کا اعتبار ہے، اس سے متعلق فتح باب العنایہ میں ہے:”فيعتبر فيها مكانُ المحل، وهو المال لا مكان الفاعل كالزكاة، بخلاف صدقة الفطر حيث يعتبر فيها مكانُ الفاعل، لأنّها تتعلّق به في الذِّمة“ترجمہ:قربانی میں محل(جانور) کی جگہ کا اعتبار ہے اور وہ مال ہے جس طرح زکوۃ میں مال والی جگہ کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ ادا کرنے والے کی جگہ کا، جبکہ صدقہ فطر میں ادا کرنے والے کی جگہ کا اعتبار ہوتا ہے کیونکہ صدقہ فطر ذمہ میں لازم ہوتا ہے۔(فتح باب العنایہ،جلد 3، صفحہ75، بيروت)

   فتاوی فیض الرسول میں سوال ہوا:”زیدبمبئی میں ہے اوراس کے بچے وطن میں ہیں،توان کے صدقہ فطرکے گیہوں کی قیمت وطن کے بھاؤسے اداکرے یابمبئی کے بھاؤسے ؟اورزیورات جن کاوہ مالک ہے وہ وطن میں ہیں توزکوۃ کی ادائیگی میں کہاں کااعتبارہے؟“

   اس کے جواب میں فرمایا:”بچے اورزیورات جب کہ وطن میں ہیں، توصدقہ فطرکے گیہوں میں بمبئی کی قیمت کا اعتبارکرناہوگااورزیورات میں وطن کی قیمت کا’’لانہ یعتبرفی صدقۃ الفطرمکان المودی وفی الزکوۃ مکان المال،ھکذاقال صاحب الھدایۃ فی کتاب الاضحیۃ(فتاوی فیض الرسول،جلد 1،صفحہ 511، شبیربرادرز، لاھور)

   تعجیل فی صدقۃ الفطر، تعجیل فی الزکوۃ کے مشابہ ہے، جیسا کہ بنایہ، عنایہ اور جوہرہ نیرہ وغیرہ میں ہے: واللفظ للاول:” (فإن قدموها على يوم الفطر جاز،لأنه أدى بعد تقرر السبب،)وهو رأس يمونه ويلي غلته( فأشبه التعجيل في الزكاة)بعد تقرر سببها وهو ملك المال“ترجمہ: اگر صدقہ فطر یوم عید سے پہلے دیا تو جائز ہے کیونکہ یہ سبب مقرر ہوجانے کے بعد ادا کرنا ہے  اور وہ ایسا شخص ہے جس کے اخراجات کا یہ کفیل ہو، لہذا یہ تقرر سبب کے بعد زکوۃ جلدی ادا کرنے کے مشابہ ہے اور وہ مال کا مالک ہونا ہے۔(البنایہ، جلد3، صفحہ505، دار الكتب العلميه)

   جب تعجیل فی صدقۃ الفطر تعجیل فی الزکوۃ کے مشابہ ہے تو جس طرح ادائیگی زکوۃ کے بعد اگر روز وجوب مثلا سونے کی قیمت بڑھ گئی تو جتنی زکوۃ زیادہ ہوئی مفتی بہ مذہب پر اتنی ادا کرنا لازم ہوتا ہے یوں ہی یہاں بھی لازم ہے۔

   عمومی حالات میں قیمت سے صدقہ فطر کی ادائیگی افضل ہے، جیسا کہ جوہرہ نیرہ میں ہے:” فإن قلت فما الأفضل إخراج القيمة أو عين المنصوص قلت ذكر في الفتاوى أن أداء القيمة أفضل وعليه الفتوى لأنه أدفع لحاجة الفقير“ترجمہ: اگر تو کہے کہ صدقہ فطر میں قیمت نکالنا افضل ہے یا عین منصوص؟ تو میں کہتا ہوں: کہ فتاوی میں مذکور ہے کہ قیمت ادا کرنا افضل ہے اور اسی پر فتویٰ ہے کیونکہ یہ فقراء کی حاجت کو زیادہ پورا کرنے والا ہے ۔(الجوهرة النيرة، جلد1، صفحہ134، المطبعة الخيرية)

   اورصدقہ فطر کی قیمت میں امام اعظم کے مفتی بہ مذہب کے مطابق معتبر  روز وجوب ہے، جیساکہ در مختار میں ہے : ’’(وجاز دفع القيمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق) وتعتبر القيمة يوم الوجوب وقالا: یوم الاداء‘‘ترجمہ : زکوٰۃ ، عشر ، صدقہ فطر ، نذر کی ادائیگی میں اور اعتاق یعنی غلام آزاد کرنے والے کفارہ کے علاوہ ہر طرح  کے کفارے میں قیمت ادا کرنا ، جائز ہے اور قیمت ادا کرنے میں مذکورہ چیزیں  لازم ہونے کے دن کی قیمت کااعتبارہوگااور صاحبین کی رائے کے مطابق یوم ادا کی قیمت کا اعتبار ہوگا ۔       ( در مختار مع رد المحتار ، کتاب الزکوٰۃ ، ج 3 ، ص 250 ، مطبوعہ کوئٹہ )

     فتاوی رضویہ میں ہے:” قیمت افضل ہے۔۔۔باقی احکام نقد وغلّہ یکساں ہیں مگر وُہ تفاوت جو خاص گندم وجَو میں بسبب اعتبار وزن معتبر، شرعی اسقاط میں لحاظ مالیت کا ہے، مثلاً: فرض کیجئے کہ نیم صاع گندم کی قیمت دوآنہ ہے اور ایک صاع جَو کی ایک آنہ تو ایک آنہ کی قیمت کی کوئی چیز کپڑ ا، کتاب، چاول، باجراوغیرہا بلحاظ قیمت جَو دے سکتے ہیں اگر چہ گندم کی قیمت نہ ہُوئی مگر چہارم صاع گندم کافی نہیں اگر چہ قیمت اُن کی بھی ایک صاع جَو کے برابر ہوگئی کہ چار چیزیں جن پر نص شرعی وارد ہوچکی ہے یعنی گندم ، جَو، خُر ما، کشمش ان میں قیمت کا اعتبار نہیں، جتنا وزن شرعاً واجب ہے اُس قدردیناہوگا۔۔۔قیمت میں نرخ بازار آج کا معتبر نہ ہوگا جس دن ادا کررہے ہیں ،بلکہ روز وجوب کا مثلاً اُس دن نیم صاع گندم کی قیمت دو آنے تھی آج ایک آنہ ہے  تو ایک آنہ کافی نہ ہوگا۔ دو آنے دینا لازم ، اور ایک آنہ تھی اب دو آنے ہوگئی تو دو آنے ضرور نہیں ایک آنہ کافی۔’’فی الدر المختار جاز دفع القیمہ فی زکوٰۃ وعشر وخراج وفطرۃ ونذروکفارۃ غیر العتاق وتعتبر القیمۃ یوم الوجوب وقالایوم الاداء ‘‘یعنی: زکوٰۃ ، عشر ، صدقہ فطر ، نذر کی ادائیگی میں اور اعتاق یعنی غلام آزاد کرنے والے کفارہ کے علاوہ ہر طرح  کے کفارے میں قیمت ادا کرنا ، جائز ہے اور قیمت ادا کرنے میں مذکورہ چیزیں  لازم ہونے کے دن کی قیمت کااعتبارہوگااور صاحبین کی رائے کے مطابق یوم ادا کی قیمت کا اعتبار ہوگا ۔“  (فتاویٰ رضویہ ، ج 10 ، ص 531 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم