
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:HAB-0542
تاریخ اجراء:21 رمضان المبارک 1446 ھ/22 مارچ 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے میں کہ اگر سحری میں کسی کی آنکھ دیر سے کھلی اور اس پر غسل فرض ہو، اب اگر وہ غسل کرتا ہے تو سحری کھانے کا موقع نہیں مل پائے گا اور اسے بھوکے پیٹ روزہ رکھنا پڑے گا، کیا اس مجبوری کی وجہ سے سحری کھا کر غسل کر سکتا ہے؟ اس صورت میں روزہ شروع ہونے کے بعد غسل ہوگا، کیا اس طرح روزہ ادا ہوجائے گا؟ یا سحری کا وقت ختم ہونے سے پہلے غسل کرنا ضروری ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جنابت روزے کے منافی نہیں، غسل فرض ہونے کی حالت میں بھی روزہ ادا ہوجاتا ہے، تو جس پر غسل فرض ہو اگر چہ اس کےلیے بہتر یہ ہے کہ سحری کا وقت ختم ہونے سےپہلے غسل کرلے لیکن ضروری نہیں۔
لہٰذا جس کی آنکھ سحری میں دیر سے کھلی اور اس پر غسل فرض ہے اور اتنا وقت نہیں کہ غسل کرکے سحری کھا سکے تو ایسا شخص پہلے سحری کھالے اس کے بعد غسل ادا کرے، اگر چہ غسل سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد روزہ کی حالت میں ادا ہو، البتہ ایسی صورت میں مناسب یہ ہے کہ غرغرہ اور ناک میں جڑ تک پانی چڑھانا، یہ دو کام سحری کا وقت ختم ہونے سے پہلے کرلے کہ روزے میں یہ نہیں ہوسکتے۔
قرآن میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: ﴿اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآىٕكُمْ۔۔۔وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۪- ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ﴾ ترجمہ کنز العرفان: تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا۔۔۔ اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہارے لئے فجر سے سفیدی (صبح) کا ڈورا سیاہی (رات) کے ڈورے سے ممتاز ہوجائے پھر رات آنے تک روزوں کو پورا کرو۔(سورۃ البقرۃ، آیت: 187)
اس آیت سے فقہائے کرام نے استدلال کیا کہ جنابت روزے کے منافی نہیں، اصول الشاشی میں ہے: ”و كذلك قوله تعالى ﴿اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ﴾ إلى قوله تعالى ﴿ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْل﴾ فالإمساك في أول الصبح يتحقق مع الجنابة لأن من ضرورة حل المباشرة إلى الصبح أن يكون الجزء الأول من النهار مع وجود الجنابة و الإمساك في ذلك الجزء صوم أمر العبد بإتمامه فكان هذا إشارة إلى أن الجنابة لا تنافي الصوم“ ترجمہ: اسی طرح اللہ رب العزت کا فرمان (تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں الخ) (اس پر دلیل ہے کہ) روزہ صبح کے پہلے جزء میں جنابت کے ساتھ متحقق ہوجاتا ہے، اس لیے کہ صبح تک جماع کے حلال ہونے کا ضروری تقاضا یہ ہے کہ دن کا پہلا جزء جنابت کے ساتھ ہو ، اور اس جزء میں مفطرات سے امساک روزہ ہے جس کے مکمل کرنے کا بندے کو حکم دیا گیا ہے، تو یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جنابت روزے کے منافی نہیں۔(اصول الشاشی، ص 101، دار الکتاب العربی، بیروت)
مراقی الفلاح، حاشیہ طحطاوی، در مختار اور بدائع الصنائع میں ہے، و النص للبدائع: ”و لو أصبح جنبا في رمضان فصومه تام عند عامة الصحابة مثل علي و ابن مسعود و زيد بن ثابت و أبي الدرداء وأبي ذر و ابن عباس و ابن عمر و معاذ بن جبل رضي الله تعالى عنهم۔۔۔ و لعامة الصحابة قوله تعالى {أحل لكم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم}۔۔۔ أحل الله عز و جل الجماع في ليالي رمضان إلى طلوع الفجر، و إذا كان الجماع في آخر الليل يبقي الرجل جنبا بعد طلوع الفجر لا محالة فدل أن الجنابة لا تضر الصوم“ ترجمہ: اگر کوئی رمضان میں جنابت کی حالت میں صبح کرے تو اس کا روزہ جمہور صحابہ کے نزدیک کامل ہے، جمہور صحابہ مثلا حضرت علی، ابن مسعود، زید بن ثابت، ابو درداء، ابوذر، ابن عباس، ابن عمر اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم اجمعین۔۔۔ جمہور صحابہ کی دلیل اللہ کا فرمان (تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں الخ) ہے۔۔۔ اللہ رب العزت نے رمضان کی راتوں میں طلوعِ فجر تک جماع کو حلال قرار دیا، اور اگر جماع رات کے آخری حصے میں ہو تو لا محالہ بندہ فجر طلوع ہونے کے بعد بھی جنابت کی حالت میں باقی رہے گا، تو یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جنابت روزے کے لیے مضر نہیں۔ (البدائع الصنائع، ج 2، ص 92، دار الکتب العلمیہ)
اوربخاری و مسلم کی حدیث میں ہے، و النص للمسلم: ”عن سليمان بن يسار أنه سأل أم سلمة عن الرجل يصبح جنبا أيصوم؟ قالت: كان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يصبح جنبا من غير احتلام، ثم يصوم“ ترجمہ:سلمان بن یسار سے روایت ہے انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ایسے شخص کے متعلق سوال کیا جس نے جنابت کی حالت میں صبح کی کہ آیا وہ روزہ رکھ سکتا ہے؟ تو انہوں نے جواب ارشاد فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بغیر احتلام جنابت کی حالت میں صبح کرتے اور پھر روزہ رکھ لیتے۔ (صحیح مسلم، ج 3، ص 138، رقم الحدیث: 1109، دار الطباعة العامرة – تركيا)
الاصل میں امام محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”قلت أرأيت رجلا أجنب في شهر رمضان ليلا فترك الغسل حتى طلع الفجر قال يتم صومه ذلك وليس عليه شيء، قال و بلغنا عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه كان يصبح جنبا من غير احتلام ثم يصوم يومه ذلك و ذلك في شهر رمضان“ ترجمہ: میں نے کہا: آپ کا ایسے شخص کے متعلق کیا کہنا ہے جو ماہ ِ رمضان میں رات کو جنبی ہوا اور غسل نہ کیا حتی کہ فجر طلوع ہوگئی، تو آپ نے فرمایا: وہ اس دن کا روزہ مکمل کرے اس پر کوئی الزام نہیں، نیز فرمایا: اور ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق یہ خبر پہنچی ہے کہ حضور علیہ السلام بغیر احتلام حالتِ جنابت میں صبح کرتے پھر اس دن کا روزہ رکھتے، اور یہ ماہ رمضان کا واقعہ ہے۔ (الاصل المعروف بالمبسوط، ج 2، ص 189، طبع کراچی)
بہار شریعت میں ہے: ”رمضان میں اگر رات کو جنب ہوا توبہتریہی ہے کہ قبلِ طلوعِ فجر نہالے کہ روزے کا ہر حصہ جنابت سے خالی ہو اور اگر نہیں نہایا تو بھی روزہ میں کچھ نقصان نہیں مگر مناسب یہ ہے کہ غَرغَرہ اور ناک میں جڑ تک پانی چڑھانا، یہ دو کام طلوعِ فجر سے پہلے کر لے کہ پھر روزے میں نہ ہو سکیں گے۔“(بہار شریعت، ج 1، حصہ 2، ص 326، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم