
مجیب:مولانا احمد سلیم عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3642
تاریخ اجراء:03 رمضان المبارک 1446 ھ/ 04 مارچ 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ایک اسلامی بہن کے گردے میں انفیکشن ہوگیا ہے، اور ڈاکٹر نے ان کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے تو اب روزہ کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں گردے کے انفیکشن کی وجہ سے اگرروزہ رکھنے کی صورت میں بیماری بڑھ جانے یا دیرسے ٹھیک ہونے کا صحیح اندیشہ (یعنی غالب گمان)ہے، تو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔
اور غالب گمان تین طرح سے حاصل ہو سکتا ہے:
اس کی کوئی واضح علامت ہو یا سابقہ ذاتی تجربہ ہو یامسلمان غیرفاسق ماہرڈاکٹرکے بتانے سے معلوم ہوا ہو، اور اگر کہیں غیرفاسق میسرنہ ہوتوپھرضروری ہے کہ اس کی بات پرغوروفکرکرنے کے بعددل جمتاہو کہ یہ ڈاکٹرخوامخواہ نہیں کہہ رہا۔اور اس صورت میں بھی اولادینی ذہن رکھنے والے سےرابطہ کیاجائے اور احتیاط یہ ہے کہ دوتین مزید ماہر ڈاکٹروں سے اس بارے میں مشورہ کرلیا جائے۔
نوٹ:یا د رہے کہ بیماری یا ہلاکت وغیرہ کا محض خیال کافی نہیں، بلکہ مذکورہ طریقوں میں سے کسی طریقے کے مطابق ظن غالب حاصل ہونا ضروری ہے۔اور یہ بھی یادرہے کہ تندرست ہونے کے بعد جتنے روزے چھوڑ ے ہوں گی، ان کی قضا بھی کرنی ہوگی۔
در مختار میں ہے ”(أو مريض خاف الزيادة) لمرضه وصحيح خاف المرض“ ترجمہ: مریض کو اپنا مرض بڑھ جانے یا تندرست کو بیمار ہوجانے کا خوف ہو تو روزہ چھوڑ سکتا ہے۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے ”(قوله خاف الزيادة) أو إبطاء البرء“ ترجمہ: (مصنف کا قول مریض کو مرض بڑھ جانے کا خوف ہو)یا دیر سے ٹھیک ہونے کا خوف ہو۔ (رد المحتار علی الدر المختار، ج 2، ص 422، دار الفکر، بیروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے "(الأعذار التي تبيح الإفطار۔۔۔ و منها المرض) المريض إذا خاف على نفسه التلف أو ذهاب عضو يفطر بالإجماع، و إن خاف زيادة العلة و امتدادها فكذلك عندنا، و عليه القضاء إذا أفطر كذا في المحيط. ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض و الاجتهاد غير مجرد الوهم بل هو غلبة ظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق كذا في فتح القدير. و الصحيح الذي يخشى أن يمرض بالصوم فهو كالمريض هكذا في التبيين‘‘ ترجمہ: وہ اعذار جن میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، ان میں سے ایک عذر بیماری ہے، اگر بیمار کو اپنی جان کے تلف ہونے یا کسی عضو کے ضائع ہونے کا خوف ہو تو وہ بالاتفاق روزہ چھوڑ سکتا ہے، اور اگر اسے بیماری کے بڑھنے یا طول پکڑنے کا اندیشہ ہو تو ہمارے نزدیک تب بھی روزہ چھوڑ سکتا ہےاور جب وہ روزہ چھوڑے گا تو اس پر قضا لازم ہوگی،یونہی محیط میں ہے۔ پھر اُس (جان کے ضائع ہونے یا عضو کے تلف ہونے یا بیماری کے بڑھنےیا دیر میں صحیح ہونے) کا علم مریض کے اجتہاد سے ہوگا، اور اجتہاد محض وہم نہیں بلکہ غالب گمان پر مبنی ہوگا جو کسی علامت، تجربے یا کسی مسلمان غیر فاسق طبیب کی خبر سے حاصل ہو،یونہی فتح القديرمیں ہے۔ اور جو تندرست شخص روزہ رکھنے سے بیمار ہونے کا اندیشہ رکھتا ہو، تو وہ بھی مریض کے حکم میں ہوگا، یونہی تبیین میں ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، صفحہ 206 ،207، دار الفکر، بیروت)
تبیین الحقائق میں ہے ”و الظاهر أنه كالفاسق حتى يعتبر في خبره في الديانات أكبر الرأي كما في خبر الفاسق۔۔۔ و من الديانات الإخبار بنجاسة الماء حتى إذا أخبره عدل أنه نجس تيمم، و لايتوضأ به، و إن كان المخبر فاسقا تحرى فيه، و كذا إذا كان مستورا في الصحيح فإن غلب على ظنه أنه صادق تيمم، و لايتوضأ به۔۔۔ و لو كان أكبر رأيه أنه كاذب يتوضأ به، و لايتيمم“ ترجمہ: ظاہر یہی ہے کہ مستور الحال فاسق کی طرح ہے یہاں تک کہ دیانات کے متعلق اس کی خبر میں ظنِ غالب کا اعتبار ہوگا جیسا کہ فاسق کی خبر میں ہوتا ہے، اور دیانات میں سے پانی کے ناپاک ہونے کی خبر دینا بھی ہے، تو اگر اسے کسی عادل شخص نے پانی کے ناپاک ہونے کی خبر دی تو یہ تیمم کرے، اور اس پانی سے وضو نہ کرے، اور اگر خبر دینے والا فاسق ہو تو تحری کرے، یونہی جب مستور الحال ہو تو بھی صحیح قول کے مطابق تحری کرے، تو اگر اس کے ظنِ غالب میں یہی ہو کہ یہ سچا ہے تو تیمم کرے اور اس پانی سے وضو نہ کرے اور اگر اس کا ظن غالب ہو کہ یہ جھوٹا ہے تو اس پانی سے وضو کرے اور تیمم نہ کرے۔(تبیین الحقائق، ج 6، ص 13، مطبوعہ: قاھرہ)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں لکھتے ہیں: "مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونےیا تندرست کو بیمار ہو جانے کا گمان غالب ہو تو ان سب کو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھیں۔۔۔ ان صورتوں میں غالب گمان کی قید ہے، محض وہم ناکافی ہے۔ غالب گمان کی تین صورتیں ہیں: (1) اس کی ظاہر نشانی پائی جاتی ہے یا (2) اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے یا (3) کسی مسلمان طبیب حاذق مستور یعنی غیر فاسق نے اُس کی خبر دی ہو۔"(بہار شریعت، جلد 1، حصہ 5،صفحہ 1003، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟