جو نہ روزہ رکھ سکے اور نہ فدیہ دے سکے اسکے لیے کیا حکم ہے؟

 

جو نہ روزہ رکھ سکے اور نہ فدیہ دے سکے اسکے لیے کیا حکم ہے؟

مجیب:مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3626

تاریخ اجراء:02رمضان المبارک 1446ھ/03مارچ2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کوئی شخص ایسا ہے ،جو روزہ نہیں رکھ سکتا اور وہ فدیہ بھی نہیں ادا کرسکتا ،تو اس کے لئے  کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شیخِ فانی (یعنی  وہ شخص  جو بڑھاپے کے سبب اتنا کمزور ہو چکا ہو کہ حقیقتاً روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو،نہ سردی میں نہ گرمی میں،نہ لگاتار نہ متفرق طور پر اور نہ ہی آئندہ زمانے میں روزہ رکھنے کی طاقت آنے کی امید ہو،ایسے شخص)کے لیے روزہ رکھنے کی بجائے فدیہ دینے کا حکم ہے ۔لیکن اگر وہ شخص واقعی فدیہ ادا کرنے پر بھی قدرت نہ رکھتا ہو ،تو جب تک قدرت نہ ہو ،اس پر فدیہ دینا لازم نہیں بلکہ ایسا شخص اللہ کی بارگاہ میں استغفار کرتا رہے۔

   چنانچہ فدیہ پر قدرت نہ ہونے کے متعلق نورالایضاح میں ہے:”ويجوز الفطر لشيخ فان وعجوز فانية وتلزمهما الفدية۔۔۔فإن لم يقدر على الفدية لعسرته يستغفر الله سبحانه ويستقيله“ترجمہ:شیخِ فانی اور بوڑھی فانیہ خاتون کے لیے روزہ نہ رکھنا جائز ہے اور ان دونوں پر فدیہ کی ادائیگی لازم ہے اور اگر تنگدستی کی وجہ سے فدیہ کی ادائیگی پر قادر نہ ہو ،تو اللہ تعالی کی بارگاہ میں استغفار کرتا رہے  اور اس سے معافی طلب کرتا رہے۔

   اس کے تحت مراقی الفلاح شرح نورالایضاح میں ہے:”(فإن لم يقدر)من تجوز له الفدية (على الفدية لعسرته يستغفر الله سبحانه ویستقیلہ) يطلب منه العفو عن تقصيره في حقه“ترجمہ:جس کے لیے فدیہ دینا جائز ہے ،اگر وہ شخص تنگدستی کی وجہ سے  فدیہ کی ادائیگی پر قادر نہ ہو ،تو وہ اللہ سبحانہ وتعالی سے استغفار کرتا رہے اور اپنے حق میں کی جانے والی کوتاہی سے اللہ کی بارگاہ میں معافی کا طلبگار رہے۔(مراقی الفلاح شرح نور الایضاح،صفحہ 347،348 ،مکتبۃ المدینہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے"شیخ فانی پر روزہ کا فدیہ حیات میں دینا واجب ہے اگر قادر ہو۔"(فتاوی رضویہ ،جلد 10،صفحہ 545 ، رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم