
مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: JTL-1616
تاریخ اجراء: 10 رمضان المبارک 1445ھ/21 مارچ 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ کیا فطرانہ کے مستحق لوگوں کو دستر خواں پہ بٹھا کر افطاری کرانے سے صدقہ فطر ادا ہو جائے گا یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صدقہ فطر کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز سے صدقہ فطر ادا کیا جائے مستحق افراد کو اس کا مالک بنایا جائے،بغیر مالک بنائے صدقہ فطر ادا نہیں ہو گا ،اور کسی کو کھانا کھلانا اباحت کے قبیل سے ہے کہ اس میں عموماً کھانا کھانے والے کو مالک نہیں بنایا جاتا ، لہٰذا صورت مسئولہ میں صدقہ فطر کی ادائیگی کے لیے صدقہ فطر کے مستحق افراد کو دستر خوان پر بٹھا کر کھانا کھلا دینے یا افطاری کروا دینے سے صدقہ فطر ادا نہیں ہو گا،البتہ مستحقین فطرانہ کو کھانے کا مالک بنا دینا بایں طور کہ چاہیں تو کھا لیں یا چاہیں تو ساتھ لے جائیں تو اس سے صدقہ فطر ادا ہو جائے گا ۔
تنویر الابصار میں ہے:”صحت الاباحۃ فی طعام الکفارات والفدیۃ دون الصدقات والعشر “ ترجمہ : کفارہ اور فدیہ کے صدقہ میں اباحت جائز ہے صدقات اور عشر میں اباحت جائز نہیں ہے ۔(الدر المختار ،جلد 3 ،باب کفارۃ الظھار ،صفحہ 480 ،مطبوعہ مصر)
علامہ شامی رحمہ اللہ مذکورہ بالا عبارت کے تحت فرماتے ہیں:”(قوله: دون الصدقات) أي الزكاة وصدقة الفطر“ترجمہ : (مصنف کے قول دون الصدقات) یعنی جن صدقات میں اباحت جائز نہیں وہ زکوٰۃ اور صدقہ فطر ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار ،جلد 3 ،باب کفارۃ الظھار ،صفحہ 480 ،مطبوعہ مصر)
شیخ الاسلام اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ ( المتوفٰی 1340 ھ) ایک سوال (کسی شخص نے زر ِزکوٰۃ کے عوض جو اس کہ ذمّہ واجب ہے، محتاجو ں کو کھانا کھلادیا ، یا کپڑے بنادئے تو زکوٰۃ ادا ہو جائےگی یا نہیں؟) کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”ادائے زکوٰۃ کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس قدر مال کا محتاجوں کو مالک کر دیا جائے ،اسی واسطے اگر فقراء و مساکین کو مثلاً اپنے گھر بلا کر کھانا پکا کر بطریقِ دعوت کھلادیا ،تو ہر گز زکوٰۃ ادا نہ ہوگی کہ یہ صورت اباحت ہے نہ کہ تملیک یعنی مَدْعُو اس طعام کو ملکِ داعی پر کھاتا ہے اور اس کا مالک نہیں ہو جاتا، اسی واسطے مہمانو ں کو روا نہیں کہ طعامِ دعوت سے بے اذنِ دعوت میزبان گداؤں یا جانوروں کو دے دیں ، یا ایک خوان والے دوسرے خوان والے کو اپنے پاس کچھ اٹھا دیں یا بعد فراغ جو باقی بچے اپنے گھر لے جائیں۔۔۔۔ ہاں اگر صاحبِ زکوٰۃ نے کھانا خام خواہ پختہ مستحقین کے گھر بھجوادیا یا اپنے ہی گھر کھلایا مگر بتصریح پہلے مالک کردیا، تو زکوٰۃ ادا ہو جائیگی ۔۔۔۔کیونکہ اعتبار تملیک کا ہے ،اس میں اس کا کوئی دخل نہیں کہ زکوٰۃ دینے والے کی گھر کھانا کھایا یا مستحق لوگوں کے گھر بھیج دیا ہو۔“(التقاطاً)(فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ75، رضا فاونڈیشن، لاھور)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا امجد علی اعظمی رحمہ اللہ ( المتوفٰی 1367 ھ) فرماتے ہیں:’’ مباح کر دینے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی،مثلاً:فقیر کو بہ نیت زکوٰۃ کھانا کھلا دیا زکوٰۃ ادا نہ ہوئی کہ مالک کر دینا نہیں پایا گیا،ہاں اگر کھانا دے دیا کہ چاہے کھائے یا لے جائے، تو ادا ہو گئی ۔یوہیں بہ نیت زکوٰۃ فقیر کو کپڑا دے دیا یا پہنا دیا ادا ہو گئی۔‘‘(بھار شریعت، جلد1،حصہ 5،صفحہ 874 ،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟