
مجیب:مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-2006
تاریخ اجراء:25 شعبان المعظم 1446 ھ/24 فروری 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
زید نے اپنے ماضی پر غور و فکر کیا تو اسے یاد آیا کہ اس نے دس سال کی عمر میں جب وہ نابالغ تھاایک روزہ توڑا تھا، معلوم یہ کرنا ہے کہ زید نے جو روزہ توڑا تھا، کیا اس پر اس روزے کا کفارہ اور قضا لازم ہوگی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جب زید نے یہ روزہ توڑا اس وقت وہ بالغ نہیں تھا، تو روزہ توڑنے کی وجہ سے نہ وہ گنہگار ہوا ہے اور نہ ہی اس پر اس روزے کی قضا یا کفارہ لازم ہے کہ نابالغ بچہ نہ تو روزہ توڑنے کے سبب گنہگار ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر قضا یا کفارہ لازم ہوتا ہے۔
فتاوی رضویہ میں ہے: ”نابالغ پر تو قلمِ شرع جاری ہی نہیں وُہ اگر بے عذر بھی افطار کرے اُسے گنہ گار نہ کہیں گے۔" لقولہ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ و سلم رفع القلم عن ثلثۃ الی قولہ صلی اﷲتعالیٰ علیہ و سلم و عن الصبی حتی یحتلم۔" کیونکہ حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: تین افراد سے قلم اٹھالیا گیاہے۔ ان میں آپ صلی اﷲتعالیٰ علیہ و سلم نے اس بچّے کا بھی ذکر فرمایا ہے جو ابھی بلوغت کو نہیں پہنچا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 345، رضا فاونڈیشن، لاہور)
بہارشریعت میں ہے: ”بچہ کی عمر دس (10) سال کی ہو جائے اور اس میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو اس سے روزہ رکھوایا جائے نہ رکھے تو مار کر رکھوائیں، اگر پوری طاقت دیکھی جائے اور رکھ کر توڑ دیا تو قضا کا حکم نہ دیں گے اور نماز توڑے تو پھر پڑھوائیں۔“ (بہارشریعت، جلد 01، حصہ 05، صفحہ 990، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم