روزے میں میاں بیوی کے چھونے سے انزال ہو تو کیا حکم ہے؟

روزے میں میاں بیوی کے آپس میں مِلنے اور چھونے سے روزے کا حکم

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-688

تاریخ اجراء:10 رمضان المبارک 1446 ھ/11 مارچ 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ  روزے کی حالت میں اگر میاں بیوی ہمبستری کے علاوہ  آپس میں ملیں اور  اسی دوران مرد و عورت کا مادہ خارج ہو جائے تو اس صورت میں روزے کا کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   (۱)اگر میاں بیوی آپس میں اس طرح ملیں کہ بیچ میں کوئی کپڑا  وغیرہ  حائل نہ ہو، یا ایسا کپڑا حائل ہو  کہ جوبدن کی گرمی محسوس ہونے میں رکاوٹ نہ  بنے، اس کپڑے  کے ساتھ  بھی  بدن کی گرمی محسوس ہوتی ہو،  تو اس صورت میں میاں بیوی میں سے جس کو بھی انزال ہوجائے تو  اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا، اگر دونوں کو انزال ہوجائے تو  دونوں کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔

   (۲) اگر بیچ میں کوئی ایسا  موٹا کپڑا حائل ہو کہ جو میاں بیوی کو ایک دوسرے کے  بدن کی گرمی محسوس ہونے میں  رکاوٹ   بنتا ہو، اس کے ساتھ  ملنے  میں ایک دوسرے کے  بدن کی گرمی محسوس نہ ہوتی ہو، تو اگرچہ اس صورت میں انزال بھی ہوجائے، بہرحال میاں  بیوی میں سے کسی کا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

   (۳)ہاں  البتہ اگر اس  دوسری صورت  میں  بیچ میں حائل موٹے کپڑے کی رگڑ سے شہوت کے ساتھ  انزال  ہو جائے، تو پھر  روزہ ٹوٹ جائے گا کہ  پہلی صورت کی طرح اس صورت میں بھی  معناً جماع پایا جائے گا۔واضح رہے کہ یہاں  جن  دو صورتوں  میں روزہ ٹوٹنے کا حکم ہے، تو ان میں  صرف  روزے کی قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں ہوگا۔

   ملتقی الابحر اور اس کی شرح مجمع الانہر میں ہے: ’’( قبل أو لمس) أي مس البشرة بلا حائل؛ لأنه لو مسها من وراء الثوب فأنزل فسد إذا وجد حرارة أعضائهم و إلا فلا كما في المحيط (إن أنزل) قيد للجميع (أفطر) و لزمه القضاء؛ لأن في الإنزال يوجد فيها معنى الجماع و لا كفارة لنقصان الجناية‘‘ ترجمہ: (مردنے عورت کا )بوسہ لیا یا چھوا یعنی بغیر کسی حائل (رکاوٹ) کے براہ راست جلد کو چھوا ؛ کیونکہ اگر کسی نے کپڑے کے اوپر سے چھوا اور انزال ہو گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا، جبکہ   اعضا کی حرارت محسوس  ہو، ورنہ نہیں، جیسا کہ محیط میں ہے ۔ (اگر انزال ہو جائے) یہ تمام صورتوں کے لیے قید ہے۔ (تو روزہ ٹوٹ جائے گا) اور اس پر قضا لازم ہوگی، کیونکہ انزال میں جماع کا ایک معنی پایا جاتا ہے او ر جنایت کے ناقص ہونے کی وجہ سے کفارہ   نہیں ہوگا۔        (ملتقی الابحر مع مجمع الانھر، جلد 1، صفحہ 246، دار إحياء التراث العربي)

   الجوہرۃ النیرہ میں ہے: ’’(فإن أنزل بقبلة أو لمس فعليه القضاء دون الكفارة) لوجود معنى الجماع و هو الإنزال عن شهوة بالمباشرة و أما الكفارة فتفتقر إلى كمال الجناية لأنها عقوبة فلا يعاقب بها إلا بعد بلوغ الجناية نهايتها ولم تبلغ نهايتها لأن نهايتها الجماع في الفرج و إن لمس من وراء حائل إن وجد حرارة البدن وأنزل أفطر وإن لم يجد حرارة البدن لا يفطر وإن أنزل‘‘ ترجمہ: اگر بوسہ لینے یا چھونے سے انزال ہو جائے تو اس پر قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں، کیونکہ اس میں جماع کا ایک معنی پایا جاتا ہے، یعنی شہوت کے ساتھ مباشرت کے نتیجے میں انزال ہونا۔ بہرحال  کفارہ  تو وہ مکمل جنایت (جماع) کی طرف محتاج ہوتا ہے ، کیونکہ کفارہ ایک سزا ہے اور سزا اسی وقت دی جاتی ہے جب گناہ اپنی انتہا کو پہنچ جائے، اور (اس صورت میں) گناہ اپنی انتہا کو نہیں پہنچا کیونکہ اس کی انتہا شرمگاہ میں جماع ہے۔ اور اگر کوئی کپڑے کے اوپر سے چھوئے تو اگر بدن کی حرارت محسوس ہو اور انزال ہو جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، اور  اگر بدن کی حرارت محسوس نہ ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا اگرچہ انزال ہوجائے۔(الجوھرۃ النیرۃ، جلد 1، صفحہ 139، المطبعۃ الخیریۃ)

   تنویر الابصار  مع در مختار ورد المحتار   میں ہے: و العبارۃ بین الھلالین من رد المحتار: ’’أو لمس و لو بحائل لا يمنع الحرارة (و قيد الحائل بكونه لا يمنع الحرارة لما في البحر لو مسها وراء الثياب فأمنى فإن وجد حرارة جلدها فسد و إلا فلا)‘‘ ترجمہ: یا چھوا، اگرچہ کسی ایسے حائل (رکاوٹ) کے ساتھ جو حرارت کو نہ روکے۔ اور حائل کی یہ قید کہ وہ حرارت کو نہ روکے اس لیے لگائی گئی ہے کہ بحر میں ہے کہ  اگر کسی نے کپڑے کے اوپر سے چھوا اور انزال ہو گیا، تو اگر اسے جلد کی حرارت محسوس ہوئی تو روزہ فاسد ہو جائے گا، ورنہ نہیں۔(تنویر الابصار مع در مختار و رد المحتار، جلد 3، صفحہ 435، دار المعرفۃ، بیروت)

   کپڑے کی رگڑ سے شہوت کے ساتھ انزال ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا  کیونکہ اس صورت میں معناً جماع پایا گیا، جیسا کہ ہاتھ سے منی خارج کرنے  یا  عورت کی ران یا پیٹ پر  مباشرت سے انزال  ہونے میں ہوتا ہے، چنانچہ رد المحتار علی الدرالمختار میں ہے: ’’فالأصل أن الجماع المفسد للصوم هو الجماع صورة و هو ظاهر، أو معنى فقط وهو الإنزال عن مباشرة بفرجه لا في فرج أو في فرج غير مشتهى عادة أو عن مباشرة بغير فرجه في محل مشتهى عادة ففي الإنزال بالكف أو بتفخيذ أو تبطين وجدت المباشرة بفرجه لا في فرج‘‘ ترجمہ: اصل یہ ہے کہ روزے کو فاسد کرنے والا  وہ جماع ہے جو صورتاً ہواور یہ ظاہر ہے ، یا  جوصرف معنوی طور پر جماع ہو، اور وہ  شرمگاہ کے ذریعے مباشرت سے انزال ہونا ہے، نہ کہ شرمگاہ میں(مباشرت کرنا کہ یہ صورۃً جماع ہے)، یا ایسی شرمگاہ  میں  مباشرت ہو جو عام طور پر شہوت کے قابل نہ ہو (جیسے مردہ یا جانور کے ساتھ)، یا پھر غیر فرج کے ذریعے ایسی جگہ مباشرت کی جائے جو عام طور پر شہوت کے قابل ہو(جیسے کسی انسان کو چھونے یا بوسہ لینے سے انزال ہوجائے)۔ لہذا ہاتھ یا  رانوں یا پیٹ  سے(مباشرت  کے ساتھ)   انزال کی صورت میں شرمگاہ  کے ذریعے مباشرت پائی جائے گی، نہ کہ شرمگاہ میں (تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور صرف قضا لازم ہوگی۔) (رد المحتار علی الدرالمختار، جلد 3، صفحہ 427، دار المعرفۃ، بیروت)

روزہ توڑنے والی چیزوں کے  بیان میں صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں ارشاد  فرماتے ہیں: ”ران یا پیٹ پر جماع کیا یا بوسہ لیا یا عورت کے ہونٹ چُوسے یا عورت کا بدن چُھوا اگرچہ کوئی کپڑا حائل ہو، مگر پھر بھی بدن کی گرمی محسوس ہوتی ہو۔    اور ان سب صورتوں میں انزال بھی ہوگیا‘‘۔(بھار شریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 989، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم