روزے دار کا عصر کے بعد فرض غسل کرنا کیسا؟

 

روزے دار کا عصر کے بعد فرض غسل کرنا کیسا؟

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی نےغسل فرض ہونے کی حالت میں روزہ رکھا اور عصر کے بعد غسل کیا، تو کیا اُس کا وہ روزہ ادا ہوگیا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

حکمِ شرع ذہن نشین رہے کہ جس شخص پر غُسل لازم ہو  اُسے چاہیے کہ نہانے میں تاخیر نہ کرےاور اگر غسل کرنے میں اتنی دیر کردی کہ نماز کا آخری وقت آگیا، تو اب فوراً نہانا فرض ہے کہ اب تاخیر کی صورت میں گنہگار ہوگا، لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر اُس شخص نے بلاوجہ شرعی غسل میں اتنی تاخیر کی کہ معاذ اللہ دو  نمازیں قضا ہوگئیں تو وہ شخص سخت گنہگار ہوا،  اس گناہ سے توبہ کرنا اور نمازوں  کی قضا کرنا اُس کے ذمے پر لازم ہے۔ البتہ اُس شخص کے روزے کا آغاز اگرچہ حالت  ناپاکی میں ہوا،  لیکن روزہ ہو گیا ۔

روزے کا آغاز ناپاکی کی حالت میں ہو، اس سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا جیسا کہ بحر الرائق، فتاوٰی شامی اور بدائع الصنائع وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:

”و النظم للاول“ لو أصبح جنبا لا يضره كذا في المحيط۔“

یعنی اگر روزہ دار نے صبح ناپاکی کی حالت میں کی تو اس کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، جیسا کہ محیط میں مذکور ہے۔(البحر الرائق ، کتاب الصوم، ج 02، ص 293، دار الكتاب الإسلامي)

الجوہرۃ النیرۃ  میں ہے:

”لو أصبح في رمضان جنبا فصومه تام۔“

یعنی اگر کوئی شخص رمضان کی  صبح ناپاکی کی حالت میں تھا ، تب بھی اُس کا روزہ درست ہے ۔(الجوهرة النيرة، کتاب الصوم،  ج 01، ص 139، المطبعة الخيرية)

فتاوٰی عالمگیری میں ہے:

”ومن أصبح جنبا أو احتلم في النهار لم يضره كذا في محيط السرخسي  ۔“

یعنی جس نے صبح ناپاکی کی حالت میں کی یا اُسے دن میں احتلام ہوا، اُس کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، جیسا کہ محیطِ سرخسی میں مذکور ہے۔(الفتاوٰی الھندیۃ، کتاب الصوم،  ج 01، ص 200، مطبوعہ بیروت)

غسل میں اتنی تاخیر کرنا کہ نماز قضا ہوجائے نا جائز و گناہ ہے جیسا کہ بہارِ شریعت میں ہے :” جس پر غُسل واجب ہے اسے چاہیے کہ نہانے میں تاخیر نہ کرے۔ حدیث میں ہے جس گھر میں جنب ہو اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے اور اگر اتنی دیر کر چکا کہ نماز کا آخر وقت آگیا تو اب فوراً نہانا فرض ہے، اب تاخیر کریگا گنہگار ہو گا۔۔۔۔ رمضان میں اگر رات کو جنب ہوا توبہتریہی ہے کہ قبلِ طلوعِ فجر نہالے کہ روزے کا ہر حصہ جنابت سے خالی ہو اور اگر نہیں نہایا تو بھی روزہ میں کچھ نقصان نہیں مگر مناسب یہ ہے کہ غَرغَرہ اور ناک میں جڑ تک پانی چڑھانا، یہ دو کام طلوعِ فجر سے پہلے کر لے کہ پھر روزے میں نہ ہو سکیں گے اور اگر نہانے میں اتنی تاخیر کی کہ دن نکل آیا اور نماز قضا کر دی تو یہ اور دِنوں میں بھی گناہ ہے اور رمضان میں اور زِیادہ ۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص 326-325، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13742

تاریخ اجراء: 16رمضان المبارک 1446 ھ/17مارچ 2025   ء