
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
تاریخ اجراء:29رمضان المبارک 1440ھ/04جون2019ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ رَمَضان المُبارَک کے بعد شوّال کے جو چھ روزے رکھے جاتے ہیں ، کیا ان کو عید کے بعد لگاتار رکھنا ضروری ہے یا الگ الگ بھی رکھے جا سکتے ہیں؟سائل : تنویر اقبال (راولپنڈی)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شوّال کے چھ روزوں کی کتبِ احادیث میں بہت فضیلت آئی ہے ۔ جو شخص شوّال کے چھ روزے رکھے ، گویا اُس نے زمانے بھر کا روزہ رکھا اور ان کا لگاتار رکھنا ضروری نہیں ، بلکہ افضل یہ ہے کہ ان روزوں کو الگ الگ رکھا جائے۔ نبیِّ پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے رَمَضان کے روزے رکھے ، پھر ان کے بعد چھ روزے شوّال میں رکھے ، تو گویا کہ اُس نے زمانے بھر کا روزہ رکھا۔ (الصحیح لمسلم ،ص456،حدیث2758)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم