سفر کا آغاز کس دن سے کیا جائے؟

 

سفر کا آغاز کس دن سے کیا جائے؟

مجیب:مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3715

تاریخ اجراء:11شوال المکرم 1446ھ/10اپریل2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    میرا سوال  یہ ہے کہ شرعی سفر کا آغاز کس دن سے کیا جائے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جہاں تک ممکن ہو جمعرات یاہفتہ یاپیرشریف کوصبح کے وقت سفرکاآغازکیاجائے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم  پیرشریف اورجمعرات کے دن سفر پسند فرماتے تھےاورعموماجمعرات کے دن سفرفرماتے تھے، اورجہادی قافلے عموما صبح  کے وقت روانہ فرماتے اورامت کے لیے صبح کے وقت میں برکت کی دعافرماتے ۔اورحدیث پاک میں  ہفتے والے دن طلوع آفتاب سے پہلے کسی حاجت کے لیےجانے میں اس کے پورا ہونے کی امید دلائی گئی ہے۔ البتہ! اہل جمعہ کو جمعہ والے دن جمعہ سے پہلے سفرکرنااچھانہیں اور سفر کو نکلنا ہی ہو تو جمعہ کاوقت شروع ہونے(یعنی آفتاب ڈھلنے)سے پہلے نکل جائے کہ جمعے کا وقت شروع ہوجانے کے بعد سفر کےلیے نکلنا منع ہے۔

   صحیح بخاری  شریف وغیرہ کتب احادیث میں ہے:

أن كعب بن مالك رضي الله عنه كان يقول:لقلما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج إذا خرج في سفر إلا يوم الخميس

   ترجمہ:حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  جب سفر کےلیے نکلیں (تو کسی دوسرے دن نکلیں) مگر جمعرات کو ہی تشریف لے جایا کرتے تھے۔ (صحيح البخاري،رقم الحدیث 2949،ج 4،ص 48،دار طوق النجاۃ)

   اسی میں ہے

أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج يوم الخميس في غزوة تبوك، وكان يحب أن يخرج يوم الخميس

    ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کے دن غزوہ تبوک کےلیے تشریف لے گئے  اور آپ  جمعرات کو ہی نکلنا پسند فرماتے تھے۔(صحيح البخاري،رقم الحدیث 2950،ج 4،ص 48،دار طوق النجاۃ)

   عمدۃ القاری میں ہے

قال كعب: كان رسول الله، صلى الله عليه وسلم يحب أن يسافر يوم الإثنين ويوم الخميس

                                                                                                  ترجمہ : حضرت کعب نے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کے دن سفر کرنا پسند فرماتے تھے۔(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج 14،ص 143، دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

   امتاع الاسماع  للمقریزی (متوفی 845ھ)میں ہے

عن عائشة رضى الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسافر في يوم الاثنين والخميس

   ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کو سفر کے لئے نکلتے تھے۔(امتاع الاسماع،ج 8،ص 152، دار الكتب العلمية ، بيروت)

   کتاب الخراج لابی يوسف میں ہے

"وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا بعث جيشا أو سرية بعثهم في أول النهار، وكان يدعو بالبركة لأمته في بكورنها، وكان يحب السفر يوم الخميس"

   ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر یا گروہ کو بھجتے تو دن کے پہلے حصہ میں بھیجتے، اور اپنی امت کےلیے ان کے صبح کے وقت میں برکت کی دعا فرماتے،اور آپ علیہ الصلاۃ و السلام جمعرات کو  سفر کےلیے نکلنا پسند فرماتے تھے۔(الخراج لأبي يوسف، صفحہ 211، المکتبۃالازھریۃ للتراث)

   کنز العمال میں حدیث پاک ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

" من بكر يوم السبت في طلب حاجة فأنا ضامن بقضائها"

   ترجمہ:جو ہفتے کے دن صبح سویرے طلبِ حاجت کے لئے نکلے تو اس کی حاجت کے پورے ہونے کا میں ضامن ہوں۔(کنز العمال،رقم الحدیث 16812،ج 6،ص 520، مؤسسة الرسالة)

   امام اہل سنت الشاہ امام  احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہوا کہ سفر کے لئے کون کون سے دن مخصوص ہیں؟

   تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا:” پنجشنبہ شنبہ دو شنبہ (یعنی جمعرات ، ہفتہ اور پیر ) ، حدیث شریف میں ہے بروز شنبہ (یعنی ہفتہ ) قبل طلوع آفتاب ( یعنی سورج نکلنے سے پہلے ) جو کسی حاجت کی طلب میں نکلے اس کا ضامن میں ہوں ۔(اسی سلسلہ تقریر میں فرمایا)بحمد اللہ دوسرے بار کی حاضری حرمین طیبین میں یہاں سے جانے اور وہاں سے واپس آنے میں انہیں تین دن میں سے ایک دن میں روانگی ہوئی تھی اور بفضلہ تعالی فقیر کا یوم ولادت بھی شنبہ (یعنی ہفتہ) ہے۔ “(ملفوظات اعلی حضرت،ص  60، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بہار شریعت میں ہے”جدھر سفر کو جائے جمعرات یا ہفتہ یا پیر کا دن ہو، اور صبح کا وقت مبارک ہے؛ اور اہل جمعہ کو روزِ جمعہ قبل جمعہ سفر اچھا نہیں  ۔“(بہار شریعت،جلد 01، حصہ 6،صفحہ 1053، مکتبۃ المدینہ)

   اسی میں ہے"جمعہ کے دن اگر سفر کیا اور زوال سے پہلے آبادی شہر سے باہر ہوگیا تو حرج نہیں، ورنہ ممنوع ہے۔"(بہار شریعت،جلد 01،حصہ 4، صفحہ 776، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم