جہیز میں ملنے والے زیور کی زکوٰۃ کس پر ہے؟

جہیز میں ملے ہوئے زیور کی زکوۃ کس پر ہوگی؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک لڑکی کی شادی ہوئی جس کے والدین نے اسے زیور دیا، اب اس زیور کی زکوۃ ادا کرنی ہے، مگر سسرال والے کہتے ہیں کہ اس کی زکوٰۃ لڑکی کے والدین ادا کریں گے، کیونکہ یہ زیور انہوں نے دیا ہے، اس حوالے سے کیا حکم ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

زیور جو کہ والدین کی طرف سے لڑکی کو شادی میں بطورِ جہیز کے ملتا ہے، تو اس زیور کی مالک خود وہ لڑکی ہوتی ہے، اس کے والدین نہیں، لہذا زیور اگرچہ والدین نے لڑکی کو دیا ہے، مگر جب وہ اس لڑکی کو دے چکے، اور شرعی اعتبار سے لڑکی اس کی مالک ہوگئی، تو اب جبکہ وہ زیور والدین میں سے کسی کی ملک ہی نہیں، تو اس کی زکوۃ بھی ان پر لازم نہیں ہوگی، بلکہ شرائط پائے جانے کی صورت میں اس کی زکوۃ لڑکی پر لازم ہوگی اور وہی زکوۃ ادا کرے گی، کیونکہ جو شخص زکوٰۃ کے نصاب کا مالک ہو، تو زکوٰۃ واجب ہونے کی شرائط پائی جانے کی صورت میں اس کے مال کی زکوٰۃ اُسی پر لازم ہوتی ہے، دوسرے پر لازم نہیں ہوتی۔

جہیز میں ملنے والا زیور، اور دیگر سامان لڑکی کی ملک ہوتا ہے، چنانچہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:

(جهز ابنته بجهاز و سلمها ذلك ليس له الاسترداد منها و لا لورثته بعد أن سلمها ذلك و في صحته) بل تختص به (و به يفتى)

ترجمہ: کسی شخص نے اپنی بیٹی کو جہیز دیا اور وُہ اس کے سپرد بھی کردیا، تو اب اس سے واپس نہیں لے سکتا، اور نہ ہی اس کے مرنے کے بعد اُس کے وارث واپس لے سکتے ہیں، بلکہ وہ خاص عورت کی ملکیت ہے، اور اسی پر فتوٰی دیا جاتا ہے، جبکہ اس نے یہ جہیز حالتِ صحت میں بیٹی کے سپرد کیا ہو (یعنی مرض الموت میں نہ دیا ہو)۔ (تنویر الابصار مع در مختار، جلد 4، کتاب النکاح، صفحہ 304، دار المعرفۃ، بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے: ”جہیز ہمارے بلاد کے عرف عام شائع سے خاص مِلک زوجہ ہوتا ہے جس میں شوہر کا کچھ حق نہیں، طلاق ہُوئی تو کُل لے گئی، اور مرگئی تو اسی کے ورثاء پر تقسیم ہوگا۔ردالمحتارمیں ہے:

كل أحد يعلم أن الجهاز ملك المرأة و أنه إذا طلقها تأخذه كله، و إذا ماتت يورث عنها

ترجمہ: ہر شخص جانتاہےکہ جہیزعورت کی ملکیت ہوتا ہے، جب شوہراس کو طلاق دیدے تو وہ تمام جہیزلے لے گی اورجب عورت مرجائے توجہیز اس کے وارثوں کو دیا جائے گا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 12، صفحہ 203، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

فتاوی رضویہ ہی میں ایک اورمقام پر ارشاد فرماتے ہیں: ”زیور، برتن، کپڑے وغیرہ جوکچھ ماں باپ نے دختر کودیاتھا، وہ سب ملک دختر ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 26، صفحہ 211، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

زکوۃ فرض ہونے کی ایک شرط نصاب کا مالک ہونا ہے، لہذا جو مالک ہوگا، زکوۃ بھی اسی پرلازم ہوگی، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:

و منھا کون المال نصابا... و منھا الملک التام: و ھو مااجمتع فیہ الملک و الید

ترجمہ:زکوۃ کی شرائط میں سے مال کا بقدر نصاب ہونا اور اس کا مکمل طور پر ملکیت میں ہونا ہے اور یہ وہ ہے جس میں ملکیت اور قبضہ جمع ہوجائے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، کتاب الزکوۃ، الباب الاول، صفحہ 189، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’زیور کہ ملکِ زن ہے اس کی زکوٰۃ ذمہ شوہر ہرگز نہیں اگر چہ اموالِ کثیرہ رکھتا ہو، نہ اس کے دینے کا اس پر کچھ وبال لا تزر وازرۃ وزر اخری (کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائیگی۔ ت)اور وُہ زیور کہ عورت کو دیا اور اس کی مِلک کردیا اُس پر بھی یہی حکم ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 132، 133، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-497

تاریخ اجراء: 26 محرم الحرام 1446ھ / 02 اگست 2024ء