
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Aqs-2760
تاریخ اجراء:13 رمضان المبارک 1446 ھ/14 مارچ 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے ایک دُکان پانچ سال کے لیے کرائے پر لی ہے، جس کے پانچ سالوں کا کرایہ (3 کروڑروپےبنتا تھا، وہ) میں نے مالکِ دکان کو شروع میں ہی دے کر دُکان اپنے استعمال میں لے لی تھی۔ اس رقم کے علاوہ بھی میں مالک نصاب ہوں، جس کا سال رمضان شریف میں ہی مکمل ہورہا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ پانچ سال کا جو ایڈوانس کرایہ (3 کروڑروپے )میں نے مالکِ دُکان کو دیا ہے، اس کی زکوٰۃ مجھ پر ہوگی یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں ایڈوانس کرائے کی مد میں آپ نے جو رقم مالکِ دُکان کو دی ہے، اس کی زکوٰۃ آپ پر نہیں بنتی، کیونکہ کرائے دار جب چیز کا کرایہ مالک کو دیتا ہے، تو وہ رقم کرائے دار کی مِلک سے نکل جاتی ہے، اگرچہ طویل عرصے کا کرایہ اکٹھا ایڈوانس میں ہی دے دیا جائے۔ جس شخص کو وہ کرایہ دیا ہے، اُس کی مِلک ہوجاتا ہے اور وہ اس رقم میں ہر طرح کا مالکانہ تصرف کر سکتا ہے۔ کرائے دار (یعنی جس نے وہ رقم ادا کی ہے، اس شخص) کا رقم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہتا، اسی وجہ سے فقہائے کرام نے بہت واضح طور پر فرمایا ہے کہ اس رقم کی زکوٰۃ بھی کرایہ لینے والے شخص پر لازم ہوگی، کرایہ دینے والے پر نہیں، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اب اس تین کروڑ کی رقم کے ساتھ آپ کا تعلق نہیں رہا اور نہ ہی اس کی زکوٰۃ آپ پر لازم ہے، اس کی زکوٰۃ کا تعلق دُکان کے مالک کے ساتھ ہے کہ اگر زکوٰۃ لازم ہونے کی دیگر شرائط پائی جائیں، تو اس رقم کی زکوٰۃ اُسی مالکِ دُکان پر ہوگی۔
کرایہ پر لی ہوئی چیز کا کرایہ پہلے ہی ادا کر دیا، تو اگلا شخص اس رقم کا مالک ہوجاتا ہے، چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ”الھدایہ“ میں ہے: ”الأجرة لا تجب بالعقد وتستحق بأحد معان ثلاثة: إما بشرط التعجيل، أو بالتعجيل من غير شرط، أو باستيفاء المعقود عليه و إذا استوفى المنفعة يثبت الملك في الأجر لتحقق التسوية. و كذا إذا شرط التعجيل أو عجل؛ لأن المساواة تثبت حقا له و قد أبطله“ ترجمہ: کرائے کا فقط عقد / ایگریمنٹ کرنے سے اجرت لازم نہیں ہوتی، اجرت کا مستحق تین اسباب میں سے کسی ایک کی وجہ سے ہوتا ہے۔ (1) یا تو اجرت ایڈوانس دینے کی شرط لگا لی جائے۔ (2) یا بغیر شرط لگائے (ویسے ہی کرائے دار نے) ایڈوانس اجرت دیدی۔ (3) یا جس چیز کا ایگریمنٹ ہوا ہے ، وہ پوری ہوجائے۔ جب اس چیز کی منفعت مکمل جائے، تو اجرت میں ملکیت بھی ثابت ہوجاتی ہے برابری کے پائے جانے کی وجہ سے۔ اسی طرح جب ایڈوانس اجرت دینے کی شرط لگائی، یا ویسے ہی ایڈوانس اجرت دیدی، (تو بھی اجرت میں اُس چیز کے مالک کی مِلکیت ثابت ہوجائے گی)، کیونکہ جو مساوات مالک کے لیے بطورِحق ثابت ہوئی تھی، اس کو اس نے خود ہی باطل کر دیا ہے۔ (الھدایہ، کتاب الاجارات، باب الاجر متی يستحق، جلد 3، صفحہ 231، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
محیط برہانی میں ہے: ”و كذا إذا عجل الأجرة من غير شرط ملكها؛ لأنه إذا عجل فقد أبطل ما يقتضيه مطلق العقد“ ترجمہ: اسی طرح اگر کرایہ بغیر شرط لگائےایڈوانس دے دیا، تو چیز کا مالک( جس کو ایڈوانس کرایہ دیا ہے، وہ) اس کرائے میں ملی ہوئی رقم کا مالک ہوجائے گا، کیونکہ جب ایڈوانس کرایہ دے دیا، تو مطلق عقد جس چیز کا تقاضا کرتا تھا، اس کو کرائے دار نے خود ہی ختم کر دیا۔ (المحیط البرھانی، کتاب الاجارات، الفصل الثانی، جلد 7، صفحہ 400، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
ایڈوانس کرایہ دے دیا، تو جس کو دیا ہے، وہ اس میں ہر طرح کا مالکانہ تصرف کر سکتا ہے، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے: ”و ملك الآجر البدل حتى تجوز له هبته، و التصدق به، و الإبراء عنه، و الشراء، و الرهن، و الكفالة، و كل تصرف يملك البائع في الثمن في باب البيع“ ترجمہ: چیز کرائے پر دینے والا شخص اس بدل (اجرت) کا مالک بن جائے گا، یہاں تک کہ وہ رقم گفٹ کرنا، صدقہ کرنا، معاف کرنا، اس کی خرید و فروخت، گروی رکھنا، کفالت وغیرہ ہر وہ تصرف کر سکتا ہے، جو خرید و فروخت کے معاملہ میں چیز بیچنے والا رقم میں تصرف کر سکتا ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الاجارہ، فصل فی حکم الاجارہ، جلد 4، صفحہ 204، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”اجارہ کا حکم یہ ہے کہ طرفین(کرایہ پر لینے دینے والے دونوں شخص) بدلین کےمالک ہو جاتے ہیں، مگر یہ مِلک ایک دم نہیں ہوتی، بلکہ وقتاً فوقتا ہوتی ہے، مگرجبکہ تعجیل یعنی پیشگی لینا شرط ہو تو عقد کرتے ہی اُجرت کامالک ہو جائے گا۔ اجارہ میں اُجرت محض عقد سے مِلک میں داخل نہیں ہوتی یعنی عقد کرتے ہی اُجرت کامطالبہ درست نہیں یعنی فوراً اُجرت دینا واجب نہیں اُجرت ملک میں آنے کی چند صورتیں ہیں :(1) اُس نے پہلے ہی سے عقد کرتے ہی اُجرت دیدی دوسرا اس کا مالک ہوگیا یعنی واپس لینے کا اُس کو حق نہیں ہے۔ (2) یاپیشگی لینا شرط کرلیا ہواب اُجرت کا مطالبہ پہلے ہی سے درست ہے۔ (3) یامنفعت کو حاصل کرلیا۔“(بھارِ شریعت، حصہ 14، جلد 3، صفحہ 109، 110، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اس رقم کی زکوٰۃ کس پر ہوگی؟ خاص اس کے متعلق دلائل:
فتح القدیر میں ہے: ”و أما زكاة الأجرة المعجلة عن سنين في الإجارة الطويلة التي يفعلها بعض الناس عقودا فتجب على الآجر لأنه ملكها بالقبض“ ترجمہ: طویل اجارہ کرنے میں کئی سالوں کا جو کرایہ ایڈوانس دیا جائے، جیسا کہ لوگ اس طرح کے ایگریمنٹس کرتے ہیں، تو اس رقم کی زکوٰۃ( چیز کے مالک ) جس نے وہ چیز کرائے پر دی ہے، اس پر لازم ہوگی، کیونکہ رقم پر قبضہ کرنے کے ساتھ وہ اس کا مالک بن گیا(تو جب وہ مالک بن گیا، تو زکوٰۃ بھی اُسی پر ہی آئے گی)۔ (فتح القدیر، کتاب الزکوٰۃ، جلد 2، صفحہ 165، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
اسی طرح بدائع الصنائع میں ہے: ”و ذكر الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل البخاري في الإجارة الطويلة التي تعارفها أهل بخارى أن الزكاة في الأجرة المعجلة تجب على الآجر؛ لأنه ملكه قبل الفسخ، وإن كان يلحقه دين بعد الحول بالفسخ“ ترجمہ: شیخ امام ابو بکر محمد بن فضل بخاری رحمۃ اللہ علیہ طویل عرصے کے لیے کیے ہوئے اجارے سے متعلق فرماتے ہیں، جو اہل بخاریٰ میں معروف تھا کہ اس میں جو ایڈوانس کرایہ دیا جاتا ہے، اس کی زکوٰۃ اس شخص پر لازم ہوتی ہے، جس نے چیز کرائے پر دی ہے (اور اجرت پر قبضہ کیا ہے)، کیونکہ فسخ سے پہلے وہ اس کا مالک ہوگیا ہے اگرچہ سال گزرنے کے بعد اس کو فسخ کرنے کے ساتھ دَین لاحق ہوجائے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکوٰۃ، جلد 2، صفحہ 6، مطبوعہ بیروت)
اسی کو احناف کا مؤقف قرار دیتے ہوئے الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ میں یوں مذکور ہے: ”و نقله الكاساني عن محمد بن الفضل البخاري الحنفي، و هو قول عند الشافعية: إن الأجرة المعجلة لسنين إذا حال عليها الحول تجب على المؤجر زكاتها كلها، لأنه يملكها ملكا تاما من حين العقد. بدليل جواز تصرفه فيها“ ترجمہ: امام ابو بکر کاسانی رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن فضل بخاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے اور یہی شوافع کا قول ہے کہ کئی سالوں کا کرایہ جب ایڈوانس میں ہی دے دیا اور جب اس کرائے پر سال گزر جائے گا ، تو جس شخص نے چیز کرائے پر دی تھی، اس پر اس تمام رقم کی زکوٰۃ نکالنا لازم ہوگا، کیونکہ عقد کے وقت سے ہی وہ ملکِ تام کے ساتھ اس رقم کا مالک ہوگیا تھا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس رقم میں تصرف کرنا اس کے لیے جائز ہے۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ ، الاجور المقبوضہ ، جلد 23 ، صفحہ 240 ، مطبوعہ کویت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم