کرائے میں دیئے جانے والے سامان پر زکوٰۃ ہوتی ہے؟

کرایہ پر دئیے جانے والے سامان پر زکوٰۃ کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ٹینٹ کا کام کرنے والوں کے پاس تمبو، قنات اور کیٹرنگ کا پورا سامان جو کرائے پر دینے کے لئے ہوتا ہے نہ کہ تجارت کے لئے، کیا ان کی زکاۃ ادا کرنا واجب ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

سوال میں بیان کیے گئے اموال پر شرعاً زکاۃ فرض نہیں۔ البتہ! اگر ان کے کرائے کی رقم خود یا دیگر اموالِ زکوٰۃ کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جائےاور ان اموال پر سال گزر جائے تو دیگر شرائطِ زکوٰۃ بھی پائی جانے کی صورت میں کرائے اور دیگر اموال زکوۃ پر زکوٰۃ فرض ہو گی اوراگر کرایہ خرچ ہوجاتا ہو، اتنا جمع نہیں ہو پاتا کہ وہ کرایہ خود یا دیگر اموال زکوٰۃ کے ساتھ مل کر نصاب کی مقدارتک پہنچے، تو زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی۔ مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ:

زکوٰۃ صرف تین قسم کے اموال پر ہوتی ہے: (1) سونا، چاندی (اس کے ساتھ تمام ممالک کی کرنسی اور پرائز بانڈبھی شامل ہیں)۔ (2) چرائی کےجانور۔ (3) مالِ تجارت (مالِ تجارت سے مراد وہ مال ہے جسے بیچنے کی نیت سے خریداہواورابھی تک وہی نیت باقی بھی ہو)۔ ان کے علاوہ دیگر کسی بھی مال پر زکوۃ لازم نہیں ہوتی۔

چونکہ ٹینٹ والوں کے پاس تمبو، قنات وغیرہ کرائے پر دینے کے لئے ہوتے ہیں اور اسی نیت سے انہوں نے خریدے ہوتے ہیں، تو شرعاً یہ مالِ تجارت میں داخل نہیں اور نہ ہی دیگر دونوں اموالِ زکاۃ میں سے ہیں، لہذا ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔

فتاوی رضویہ میں ہے ”(کرائے کے)مکانات پر زکوٰۃ نہیں، اگرچہ پچاس کروڑ کے ہوں، کرایہ سے جو سال تمام پر پس انداز ہو گا اس پر زکوٰۃ آئے گی، اگر خود یا اور مال سے مل کر قدرِ نصاب ہو۔“ (فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ161، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

اعلی حضرت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ: "زکوۃ کن کن اشیاء پر واجب ہے؟"تو آپ علیہ الرحمۃنے جواباً ارشاد فرمایا: "سونا چاندی اور مال تجارت اور چرائی پر چھوٹے ہوئے جانور۔" (فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ139، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4157

تاریخ اجراء: 30صفرالمظفر1447ھ/25اگست2025ء