
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک خاتون کی شادی ہوئی، اس کے پاس 10 تولہ سونا تھا، سال گزرنے پر اس نے زکوۃ ادا کر دی، پھر اس کے ہاں بچی کی ولاد ت ہوئی، تو ا س نے چار تولہ سونا اپنی بیٹی کو دینے کا ارادہ کیا اور بیٹی کو مالک بنانے کےلئے اس کے والد (یعنی اپنے شوہر) کے قبضے میں دیدیا، یوں اس کے پاس فقط چھ تولے سونا باقی رہ گیا ہے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ اب ماں اور نابالغ بیٹی پر زکوۃ کے حوالہ سے کیا احکامات عائد ہوں گے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اولاً زکوۃ کے حوالہ سے بنیادی اصول سمجھ لیجئے:
٭ فرضیتِ زکوۃ کی شرائط میں سے ایک شرط ’’بالغ ہونا ‘‘ بھی ہے، لہذ انابالغ پر زکوۃ فرض نہیں ہو گی، اگرچہ وہ صاحبِ نصاب ہو۔
٭ کسی کے پاس فقط سونا ہو، اس کے علاوہ سونے کی ہم جنسِ نصاب (یعنی چاندی، روپیہ پیسہ، پرائز بانڈ، مالِ تجارت وغیرہ) میں سے کوئی اور مالِ زکوۃ نہ ہو، تو جب تک سونا وزن کے اعتبار سے ’’ساڑھے سات (7.5) تولہ‘‘ مکمل نہ ہو، اس پر زکوۃ فرض نہیں ہو گی۔
٭ اگر سونے کے ساتھ ہم جنسِ نصاب (مثلاً چاندی، روپیہ پیسہ، پرائز بانڈ یا مالِ تجارت وغیرہ) میں سے کوئی چیز مل جائے یا چاندی، نقدی، پرائز بانڈ، مالِ تجارت وغیرہ تنہا یا اپنی ہم نصاب چیزوں کے ساتھ مل جائیں، تو ان پر فرضیتِ زکوۃ کا نصاب ’’ساڑھے باون (52.5) تولے چاندی کی مالیت‘‘ ہوتی ہے۔
ان اصولوں کی روشنی میں واضح ہو گیا کہ نابالغ بچی پر زکوۃ فرض نہیں ہو گی، حتی کہ اگر سارا سونا ہی اس کو دیدیں، تب بھی اس پر زکوۃ لازم نہیں ہو گی۔ اور جہاں تک خاتون پر زکوۃ فرض ہونے کا تعلق ہے، تو اس بارے میں شرعی حکم یہ ہو گا کہ اگر اس کے پاس فقط چھ تولہ سونا ہے، اس کے علاوہ جنسِ نصاب (چاندی، روپیہ پیسہ، مالِ تجارت وغیرہ) میں سے کچھ بھی نہیں، تو خاتون پر اس سونے کی زکوۃ فرض نہیں ہو گی۔البتہ اگر اس کی ملکیت میں سونے کےساتھ ہم جنسِ نصاب (چاندی، روپیہ پیسہ، مالِ تجارت وغیرہ) میں سے کوئی بھی چیز موجود ہو اور قرض وغیرہ مائنس کرنے کے بعد ان کی مجموعی مالیت 52.5 تولہ چاندی کے برابر یا زائد بن جائے، تو دیگر شرائط کی موجودگی میں اس پر زکوۃ فرض ہو گی۔
تنبیہ: زکوۃ سے بچنے کےلئے حیلہ اپنانا اور مالِ زکوۃ اپنی ملکیت سے خارج کر دینا مکروہ تحریمی، ناجائز و گناہ ہے، البتہ اگرکوئی ایسا کر دے ، تو دیگر شرائط کی موجودگی ا س کی ملکیت باقی نہ رہے گی۔ نیز نابالغ بچوں کا مال والدین کو بھی بلا اجازتِ شرعی استعمال کرنا یا بیچنا جائزنہیں، حتی کہ بچے بھی اپنا مال کسی کو نہیں دے سکتے ۔
مذکورہ اصولوں کے متعلق جزئیات بالترتیب ملاحظہ فرمائیں:
نابالغ پر زکوۃ فرض نہیں۔ بدائع الصنائع میں ہے:
و منها البلوغ عندنا فلا تجب على الصبي
ترجمہ: (فرضیتِ زکوۃ کی) شرائط میں سے بالغ ہونا بھی ہے، لہذا (نابالغ) بچہ پر زکوۃ فرض نہیں ہو گی۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکوۃ، جلد 2، صفحہ 79، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)
فقط سونا ہو، تو فرضیتِ زکوٰۃ کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
لیس فیما دون مائتی درھم شئ و لا فیما دون عشرین مثقالا ذھبا شئ
ترجمہ:دو سو درہم (ساڑھے باون تولہ چاندی) سے کم میں کوئی چیز نہیں ہے اور بیس مثقال (ساڑھے سات تولہ سونے) سے کم میں کوئی چیز نہیں ہے۔ (الاموال لابن زنجویہ، جلد 3، صفحہ 987، مطبوعہ السعودیۃ)
تحفۃ الفقہاء میں ہے:
اما الذھب المفرد ان یبلغ نصابا و ذلک عشرون مثقالا ففیہ نصف مثقال و ان کان اقل من ذلک فلا زکاۃ فیہ
ترجمہ: صرف سونا ہو، تو اگر وہ نصاب کو پہنچے، تب اس میں زکوٰۃ فرض ہو گی اور سونے کا نصاب بیس مثقال(یعنی ساڑھے سات تولہ) سونا ہے اور اگر سونا اس سے کم ہو، تو اس میں زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی۔ (تحفۃ الفقھاء، جلد 1، صفحہ 266، مطبوعہ بیروت)
سونے کے ساتھ چاندی، مالِ تجارت وغیرہ جنسِ نصاب میں سے کوئی مال ہو، تو وجوبِ زکوۃ کا نصاب ’’ 52.5 تولے چاندی کی مالیت‘‘ ہے۔ تبیین الحقائق میں ہے:
تضم قیمۃ العروض الی الذھب و الفضۃ و یضم الذھب الی الفضۃ بالقیمۃ فیکمل بہ النصاب لان الکل من جنس واحد
ترجمہ: سامان کی قیمت کو سونے چاندی کی قیمت کے ساتھ ملایا جائے گا اور سونے کو قیمت کے اعتبار سے چاندی کے ساتھ ملایا جائے گا تاکہ نصاب مکمل ہو جائے، کیونکہ یہ سب ایک ہی جنس سے ہیں۔ (تبیین الحقائق، جلد 1، صفحہ 281، مکتبہ امدادیہ، ملتان)
مفتئ اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی وقار الدین قادری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :جس کے پاس صرف سونا ہے، روپیہ پیسہ، چاندی اور مالِ تجارت بالکل نہیں، اس پر سوا سات تولے تک سونے میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے، جب پورے ساڑھے سات تولہ ہو گا، تو زکوٰۃ فرض ہو گی، اسی طرح جس کے پاس صرف چاندی ہے، سونا، روپیہ پیسہ اور مالِ تجارت بالکل نہیں ہے، اس پر باون تولے چاندی میں بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہے، جب ساڑھے باون تولہ پوری ہو یا اس سے زائد ہو، تو زکوٰۃ فرض ہو گی۔ لیکن اگر چاندی اور سونا دونوں یا سونے کے ساتھ روپیہ پیسہ، مالِ تجارت بھی ہے، اسی طرح صرف چاندی کے ساتھ روپیہ پیسہ اور مالِ تجارت بھی ہے، تو وزن کا اعتبار نہ ہو گا، اب قیمت کا اعتبار ہو گا، لہٰذا سونا چاندی، نقد روپیہ اور مالِ تجارت سب کو ملا کر، اگر ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے، تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔ (وقار الفتاوی، جلد 2، صفحہ 384 تا385، بزم وقار الدین، کراچی)
زکوۃ سے بچنے کے لئے حیلہ کرنا جائز نہیں۔ بحر الرائق میں ہے:
و تحرم حیلۃ دفع وجوب الزکاۃ عند الاکثرین من الفقھاء
ترجمہ: اکثر فقہاء کے نزدیک وجوبِ زکوٰۃ سے بچنے کے لئے حیلہ کرنا حرام ہے۔ (بحر الرائق، کتاب الزکوٰۃ، ج 2، صفحہ 385، مطبوعہ بیروت)
غمز عیون البصائر میں ہے:
الفتوی علی عدم جواز الحیلۃ لاسقاط الزکاۃ
یعنی فتوی اسی پر ہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت سے بچنے کے لئے حیلہ کرنا، جائزنہیں۔ (غمز عیون البصائر،الفن الخامس، جلد 4، صفحہ 222، مطبوعہ بیروت)
نابالغ اپنا مال نہ وہ خود کسی کو دے سکتا ہے اور نہ والدین بلا حاجت لے سکتے ہیں۔ تنویر الابصار و درمختار مع رد المحتار میں ہے:
و ان ضار کالطلاق و العتاق و الصدقۃ و القرض، لا و ان اذن بہ ولیھما (و کذا لاتصح من غیرہ کابیہ و وصیہ و القاضی للضرر)
ترجمہ: اور اگربچہ یا معتوہ ایسا تصرف کریں،جس سے اُنہیں محض ضررہو ،جیسے طلاق دینا،غلام آزاد کرنا، صدقہ کرنا یا قرض دینا، تو یہ تصرف صحیح نہیں ہے، اگرچہ ان کا ولی اس کی اجازت دے، اسی طرح اگریہ تصرفات بچے کا غیر کرے، جیسے اس کا باپ، وصی یا قاضی، تو ضرر کی وجہ سے تب بھی درست نہیں۔ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب المأذون، جلد 9، صفحہ 291،مطبوعہ کوئٹہ)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نابالغ کے تصرفات تین قسم ہیں: ضارّمحض جس میں خالص نقصان ہو یعنی دنیوی مضرت ہو، اگرچہ آخرت کے اعتبار سے مفید ہو، جیسے صدقہ و قرض، غلام کو آزاد کرنا، زوجہ کو طلاق دینا، اس کا حکم یہ ہے کہ ولی اجازت دے، تو بھی نہیں کر سکتا، بلکہ خود بھی بالغ ہونے کے بعد اپنی نابالغی کے ان تصرفات کو نافذ کرنا چاہے نہیں کر سکتا، اس کا باپ یا قاضی ان تصرفات کو کرنا چاہیں، تو یہ بھی نہیں کر سکتے۔ (بھار شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 204، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو تراب محمد علی عطاری
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: Pin-7574
تاریخ اجراء: 25 رمضان المبارک 1446ھ / 26 مارچ 2025ء