زکوۃ کے وکیل سے زکوۃ کی رقم گم ہوجانے کا حکم

زکوۃ کے وکیل سے زکوۃ کی رقم گم ہو گئی تو اس کا حکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

زید نے بکر کو زکوۃ کے  پیسے دے کر کہا   جہاں چاہو دے دینا لیکن بکر سے وہ پیسے گم ہو گئے یا گر گئےتو کیا اب بکر کو اپنی طرف سے اتنی رقم  زکاۃ دینی ہوگی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اگر یہ رقم کا گم ہونا وکیل کی غفلت وغیرہ کی وجہ سے تھا مثلا جیب پھٹی ہوئی تھی، اس میں سے رقم گرسکتی تھی، اس نے اس میں رقم ڈالی اور وہ گرگئی یا حفاظت میں قصور واقع ہوا کہ جس طرح حفاظت کرنی چاہیے تھی اس طرح نہیں کی، تواس صورت میں وکیل پراصل مالک کو تاوان  اداکرنالازم ہے، اور مالک کی زکوۃ ابھی ادا نہیں ہوئی، اس پرزکوۃ کی ادائیگی لازم ہے۔

اور اگر تقصیر و تعدی نہ تھی تو تاوان اداکرنا تو لازم نہیں لیکن پھر بھی وہ مالک کو بتائے گا کہ اس کی زکوۃ ادا نہ ہوئی تا کہ وہ  اپنی زکوۃ ادا کرسکے،  کہ زکوۃ کی ادائیگی فقیر کو مالک کر دینے سے ہوتی ہے، فقط زکوۃ کی رقم علیحدہ کر دینے یا وکیل کو سپر د کر دینے سے  نہیں ہوتی۔

نوٹ: یہ یاد رہے کہ! جب زکوۃ کی ادائیگی سے پہلے ہی رقم ضائع ہوگئی تواب بکر کی وکالت ختم ہوگئی، لہذا اگر مالک سے اجازت لیے بغیر ہی اپنی طرف سے اس کی زکوۃ ادا کردے گا تو زکوۃ ادا نہیں ہوگی، اگرچہ بعد میں مالک اس کو جائز کر بھی دے۔

فتاوی رضویہ میں ہے ”وہ شخص امین ہے جبکہ اس نے حفظ میں قصور نہ کیا اور جاتارہا اس پر تاوان نہیں، ہاں اگر اس نے غفلت کی مثلا جیب پھٹی ہوئی تھی اس میں سے نکل جانے کا احتمال تھا اس نے ڈال لیا اور وہ نکل گیا تو ضرور اس پر تاوان ہے  لانہ متعد و المتعدی ضامن (کیونکہ یہ تعدی کرنے والا ہوا اور تعدی کرنے والا ضامن ہوتا ہے) ۔“ (فتاوی رضویہ،  جلد 19،  صفحہ 164،  رضا فاونڈیشن، لاہور)

النہرالفائق میں ہے

”لا یخرج بالعز ل عن العھدۃ بل لابدمن التصدق بہ حتی لوضاعت لم تسقط عنہ کذا فی الخانیۃ وتورث عنہ کما فی المحیط“

 ترجمہ: مال زکوۃ کو علیحدہ کردینے سے برئ الذمہ نہ ہوگا بلکہ اس کو صدقہ کرنا ضروری ہے، یہاں تک کہ اگر (مال ِ زکوۃ علیحدہ کرکے رکھ دیا تھا، اور) وہ ضائع ہوگیا تو زکوۃ ساقط نہ ہوئی، اسی طرح خانیہ میں ہے اور اس میں وراثت جاری ہو گی، جیسا کہ محیط میں ہے۔ (النھر الفائق، جلد 1، صفحہ 419، دار الكتب العلمية، بیروت)

البحر الرائق میں ہے

"ولو أدى زكاة غيره بغير أمره فبلغه فأجاز لم يجز؛ لأنها وجدت نفاذا على المتصدق؛ لأنها ملكه، ولم يصر نائبا عن غيره فنفذت عليه ولو تصدق عنه بأمره جاز۔"

 ترجمہ:  اگر کسی دوسرے کی زکاۃ اس کے حکم کے بغیر ادا کی، پس اس کو خبر پہنچی تو اس نے جائز قرار دے دی تو یہ جائز نہیں ہے (یعنی اس کی زکاۃ ادا نہ ہوئی) کیونکہ وہ باعتبار نفاذ متصدق پر پائی گئی کہ وہ اس کی ملک ہے اور وہ دوسرے کا نائب نہیں تھا، لہذا اسی پر نافذ ہو گی۔ اور اگر کسی دوسرے کی طرف سے اس کے حکم سے ادا کی تو جائز ہے۔ (البحر الرائق، جلد2، صفحہ 226،227، دار الکتاب الاسلامی،بیروت)

بہارِ شریعت میں ہے "زکاۃ دینے والے نے وکیل کو زکاۃ کا روپیہ دیا ۔۔۔۔اگر وکیل نے پہلے اس روپیہ کو خود خرچ کر ڈالا بعد کو اپنا روپیہ زکاۃ میں  دیا تو زکاۃ ادا نہ ہوئی بلکہ یہ تبرع ہے اور مؤکل کو تاوان دے گا۔"(بہارِ شریعت، جلد1، حصہ5، صفحہ888، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:  مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-4155

تاریخ اجراء: 02 ربیع الاول1447 ھ/27اگست 2520 ء