
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا مدرسہ کی دینی ضروریات کے لئے زکوۃ کی رقم کا کسی ایسے مستحقِ زکوۃ نابالغ بچہ سے حیلہ شرعی کروا سکتے ہیں کہ جو سمجھدار ہو اور قبضہ کرنا جانتا ہو؟ نیز اس کا باپ دادا وغیرہ بھی وفات پا چکے ہیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مسجد و مدرسہ وغیرہ کی دینی ضروریات کے لئے زکوۃ کی رقم کا کسی نابالغ بچہ سے حیلہ شرعی نہیں کروا سکتے، اگرچہ وہ مستحقِ زکوٰۃ بچہ سمجھدار اور قبضہ کرنا جانتا ہو۔
تفصیل اس مسئلہ میں یہ ہے کہ ایسا نابالغ بچہ جس کے باپ دادا وفات پا چکے ہوں اور خود وہ نابالغ شرعی فقیر ہو، نیز سید یا ہاشمی بھی نہ ہو، تو اسے زکوۃ تو دی جا سکتی ہے، جبکہ اسے زکوۃ کے مال کا مالک بنا دیا جائے، البتہ اس سے حیلہ شرعی کروانا، جائز نہیں کہ نابالغ اپنی مرضی سے یا والدین و سرپرست کی اجازت سے بہر صورت نفلی صدقہ یا ہبہ (Gift) نہیں کر سکتا، یعنی اپنی ذاتی رقم مسجد و مدرسہ میں خرچ نہیں کر سکتا کیونکہ نابالغ مالی صدقہ کا اہل نہیں کہ نابالغ کے اپنے ذاتی مال میں اس طرح کے تمام تصرفات باطل ہیں۔
جس نابالغ بچہ کا باپ فوت ہو چکا ہو، جبکہ اس کی والدہ مالدار ہو، تو اس کو زکوۃ دینے کے متعلق علامہ ابن نجیم مصری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 970ھ/1562ء) لکھتے ہیں:
”انما منع من الدفع لطفل الغنی لانہ یعد غنیا بغناء ابیہ کذا قالوا وھو یفید ان الدفع لولد الغنیۃ جائز اذ لا یعد غنیا بغناء امہ ولم یکن لہ اب“
یعنی غنی شخص کے نابالغ بچہ کو زکوۃ نہیں دی جائے گی، کیونکہ وہ اپنے باپ کے غنی ہونے کی وجہ سے غنی شمار ہوگا، جیسا کہ فقہائےکرام نے فرمایا ہے اور یہ قید اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ مال دار عورت کے نابالغ بچہ کو زکوۃ دینا جائز ہے، کیونکہ ماں کے مال دار ہونے کی وجہ سے نابالغ بچہ کو غنی شمار نہیں کیا جاتا، اگرچہ اس بچہ کا باپ نہ ہو۔ (بحر الرائق، جلد2، صفحہ265، مطبوعہ دار الكتاب الاسلامی)
جن افراد کو زکوۃ دینا شرعاً جائز ہے، اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”نا بالغ بچہ، اگر چہ یتیم ہو یا اپنے بہن، بھائی، چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں، بلکہ انہیں دینے میں دُونا ثواب ہے، زکوۃ وصلہ رحم۔“ (فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ110، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
نابالغ شرعی فقیر کو زکوۃ سپرد کر نے کے طریقہ کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:
”اذا دفع الزکاۃ الی الفقیر لا یتم الدفع مالم یقبضھا او یقبضھا للفقیر من لہ ولایۃ نحو الاب و الوصی یقبضان للصبی والمجنون۔ ۔ ۔ ولو قبض الصغیر وھو مراھق جاز وکذا لو کان یعقل القبض بان کان لا یرمی ولا یخدع عنہ“
ترجمہ: جب کسی نے (شرعی) فقیر کو زکوۃ دی، تو اس زکوۃ کی ادائیگی اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک فقیر خود قبضہ نہ کر لے یا جس کو فقیر پر ولایت حاصل ہے وہ قبضہ نہ کر لے، جیسا کہ باپ اور وصی بچہ اور مجنون کی طرف سے قبضہ کرتے ہیں۔ ۔ ۔ اور اگر کسی نابالغ بچہ نے مالِ زکوۃ پر قبضہ کر لیا اس حال میں کہ وہ بالغ ہونے کے قریب ہو، تو یہ جائز ہے اور اسی طرح اس نابالغ بچہ کو زکوۃ دینا جائز ہے کہ جو قبضہ کرنا جانتا ہو اس طور پر کہ وہ اس چیز کو نہیں پھینکے گا اور نہ ہی دھوکا کھائے گا۔ (الفتاوى الھندیۃ، جلد1، صفحہ190، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
نابالغ کا ہبہ جائز نہیں، جیسا کہ ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:
”لا تجوز هبة الصبی والمجنون لانهما لا يملكان التبرع لكونه ضررا محضا لا يقابله نفع دنيوی فلا يملكها الصبی والمجنون كالطلاق والعتاق“
ترجمہ: نابالغ بچہ اور مجنون کا ہبہ جائز نہیں، کیونکہ یہ دونوں تبرع کے اہل نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ تبرع ضرر محض ہوتا ہے جس کے مقابلہ میں کوئی دنیوی نفع نہیں ہوتا، لہٰذا نابالغ بچہ اور مجنون کو مثلِ طلاق وعتاق کے اس کا بھی اختیار نہیں ہوگا۔ (بدا ئع الصنائع، ، جلد6، صفحہ118، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بیروت)
نابالغ صدقہ یا ہبہ کرے، تو اس کا یہ تصرف باطل ہے، ولی کی اجازت پر موقوف نہیں ہوگا، جیسا کہ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/1921ء) "جامع الصغار" کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں:
”لو ان الصبی طلق او وھب او تصدقاو باع بمحاباۃ فاحشۃ او اشتریٰ باکثر من قیمتہ قدر مالا یتغابن الناس فی مثلہ۔ ۔ ۔ ۔ فھذہ العقود کلھا باطلۃ لا تتوقف“
یعنی اگر بچے نے طلاق دی یا ہبہ کیا یا صدقہ کیا یا بہت زیادہ سستا فروخت کیا یا اتنی زیادہ قیمت پر خریدا جس میں لوگ دھوکہ نہیں کھاتے، تو یہ تمام عقود باطل ہوں گے، ولی کی اجازت پر موقوف نہ رہیں گے۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد19، صفحہ637، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
بہار شریعت میں ہے: ”باپ کو یہ جائز نہیں کہ نابالغ لڑکے کا مال دوسرے لوگوں کو ہبہ کردے، اگرچہ معاوضہ لے کر ہبہ کرے کہ یہ بھی ناجائز ہے اور خود بچہ بھی اپنا مال ہبہ کرنا چاہے، تو نہیں کرسکتا یعنی اس نے ہبہ کردیا اور موہوب لہ کو دے دیا، اس سے واپس لیا جائے گا کہ ہبہ جائز ہی نہیں، یہی حکم صدقہ کا ہے کہ نابالغ اپنا مال نہ خود صدقہ کرسکتا ہے نہ اس کا باپ۔ “(بھارِ شریعت، جلد3، حصہ 14، صفحہ81، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
نابالغ سے حیلہ شرعی کروانے کے متعلق مفتی جلال الدین امجدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1422ھ/2001ء) لکھتے ہیں: ”بکرجو مالک نصاب ہے وہ ہندہ یتیمہ کو زکوۃ دے سکتا ہے، بشرطیکہ وہ یتیمہ نہ مالک نصاب ہو، نہ سیدہ ہو اور نہ ہاشمیہ اور نہ بکر کی اولاد کی اولاد ہو، مگر اس سے حیلہ شرعی کرنا صحیح نہیں کہ مال ِزکوۃ پر قبضہ کرنے کے بعد جب وہ بکر کو دے گی، تو ہبہ ہوگا اور نابالغ کا ہبہ صحیح نہیں۔ “(فتاوی فیض رسول، جلد1، صفحہ492، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD -9029
تاریخ اجراء: 02 صفر المظفر1445ھ/08 اگست2024ء