Mulazim Ko Zakat Dene Ka Hukum

 

کیا اپنے ملازم کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13382

تاریخ اجراء: 15ذوالقعدۃ الحرام 1445 ھ/24 مئی 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میری کاسمیٹکس کی دکان ہےاور میں صاحبِ نصاب بھی ہوں، اس دکان میں میرا ایک ملازم ہے، جس کو میں ماہانہ تنخواہ دیتا ہوں ، یہ ملازم مالی حوالے سے کمزور ہے، اس لیے میں اس کو تنخواہ سے ہٹ کر کچھ رقم وقتاً فوقتاًبطور ایڈوانس زکوٰۃ بھی دے دیتا ہوں، نیت میری یہی ہوتی ہے کہ میرا فرض ادا ہوجائے ، اس کی مالی امداد ہوجائے اور یہ میری دکان چھوڑ کر بھی نہ جائےاور یہیں کام کرتا رہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس طرح کی نیت کرنے سے میری زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   زکوٰۃ کی ادائیگی درست ہونے کے لیے نیت شرط ہے کہ بلا نیت زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی ، زکوٰۃ دیتے وقت    نیت یہ ہو کہ اللہ رب العالمین  کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس کی طرف سے مقرر کیے گئے فرض کی ادائیگی کررہا ہوں اور اس کے ساتھ کوئی ایسی نیت شامل نہ ہو، جو ادائیگیِ زکوٰۃ کے منافی ہو،لہٰذا جب آپ نےاپنے ملازم شرعی فقیر مستحقِ زکوٰۃ کواس کی اجرت و تنخواہ سے ہٹ کر زکوٰۃ کی نیت سےزکوٰۃ کی رقم دی ، تو زکوٰۃ ادا ہوگئی اور فرض ذمہ سے ساقط ہوگیا۔

   تنویر الابصار میں ہے:”تمليك جزء مال عينه الشارع من مسلم فقير غير هاشمی ولامولاه مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى“یعنی زکوٰۃ شارع کی طرف سے مقرر کردہ حصے کا فقط رضائے الہٰی کے لیے کسی مسلمان فقیر کو اس طرح مالک بنانا  ہے کہ ہر طرح سے مالک نے اس شے سے نفع حاصل کرنا ترک کر دیا ہو ،بشرطیکہ وُہ مسلمان ہاشمی نہ ہو اور نہ ہی اس کا غلام ہو ۔

   درمختار میں ہے:”لله تعالى بيان لاشتراط النية“یعنی ''اﷲکےلیے ہو '' کے الفا ظ نیت ہی کو شرط قرار دینے کے لیے ہیں۔

   ردالمحتار میں ہے:”( قوله لله تعالى ) متعلق بتمليك أي لأجل امتثال أمره تعالى “یعنی ماتن کے قول(للہ تعالیٰ) کا تعلق لفظِ تملیک کے ساتھ ہے یعنی یہ عمل فقط اپنے رب تعالیٰ کے حکم کی بجاآوری کے طور پر ہو۔(ردالمحتار علی الدرالمختار شرح تنویر الابصار، جلد3، صفحہ 203،207، مطبوعہ بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے:”اصل یہ ہے کہ زکوٰۃ میں نیت شرط ہے ، بے اس کے ادا نہیں ہوتی۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 65، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں” جبکہ تقریرِ سوال سے ظاہر کہ انہوں نے محض بہ نیتِ زکوٰۃ دیا اور اسے زکوٰۃ ہی خیال کیا، معاوضہ و اجرت کا اصلاً لحاظ نہ تھا ، تو بے شک زکوٰۃ ادا ہوگئی، اگرچہ وہ شخص جسے زکوٰۃ دی گئی اپنے علم میں کچھ جانتا ہو ، اگرچہ انہوں نے اس سے صاف کہہ بھی دیا ہو کہ یہاں رہو گے ، تو دیں گے ورنہ نہ دیں گے، اگرچہ وہ عمل بھی اس کے مطابق کریں یعنی ایامِ حاضری میں دیں ، غیر حاضری میں نہ دیں کہ جب نیت میں صرف زکوٰۃ کا خاص قصد ہے، تو ان میں کوئی امر اس کا نافی و منافی نہیں۔“(فتاوی رضویہ،جلد 10، صفحہ 69، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   مستحقِ زکوٰۃ کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے:”مصرفِ زکوٰۃ ہر مسلمان حاجتمند ہے جسے اپنے مالِ مملوک سے مقدارِ نصاب فارغ عن الحوائج الاصلیہ پر دسترس نہیں، بشرطیکہ نہ ہاشمی ہو، نہ اپنا شوہر ، نہ اپنی عورت اگرچہ طلاقِ مغلظہ دے دی ہو جب تک عدت سے باہر نہ آئے ، نہ وہ جو اپنی اولاد میں ہے جیسے بیٹا  بیٹی، پوتا پوتی ، نواسا نواسی، نہ وہ جن کی اولاد میں یہ ہے ،جیسے ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی۔۔۔۔نہ مرد غنی کا نابالغ بچہ۔۔۔ان کے سوا سب کو روا۔“ (ملتقطاً ،فتاوی رضویہ  ، جلد 10، صفحہ 246،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   جہاں تک نیت میں اس بات کو شامل کرنے کا تعلق ہے کہ زکوٰۃ اس ملازم کو اس لیے دے رہا ہوں کہ یہ میری دکان چھوڑ کر نہ جائے ، میرے پاس ہی کام کرتا رہے، تو اس نیت سے اگرچہ زکوٰۃ کی ادائیگی میں خلل واقع نہیں ہوگا،لیکن اس طرح کی نیت عمل کے قبول ہونے میں رکاوٹ کا باعث ہے کہ قبولیتِ عمل کے لیے ضروری ہے کہ جو بھی  عمل کیا جائے وہ خالص اللہ پاک کی رضا حاصل کرنےکے لیےکیا جائےاور اس عمل میں کسی مخلوق کےارادہ کو ہرگز شامل نہ کیا جائے، جیسا کہ حدیث پاک میں ارشادہوا کہ اپنے اعمال خالص اللہ پاک کی رضا کے لیے کرو کہ اللہ پاک وہی عمل قبول فرماتا ہے، جو خالص اس کے لیے کیے جائیں، اگر اس میں کسی مخلوق کو شامل کیا گیا یا کسی دنیوی مقصد کے لیے وہ عمل کیا گیا، تو اس طرح کا عمل قبول نہیں ہوگا یعنی اس پر ثواب حاصل نہیں ہوگا۔

   شعب الایمان میں حضرت ضحاک بن قیس فہری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”يا أيها الناس، أخلصوا أعمالكم لله عز وجل فإن اللہ عز وجل، لا يقبل إلا ما أخلص له، ولا تقولوا هذا لله وللرحم ، فإنها للرحم، فليس لله عز وجل منها شيء، ولا تقولوا هذه لله ولوجوهكم، فإنها لوجوهكم ليس لله منها شيء “یعنی اے لوگو! اپنے اعمال خالص اللہ عزوجل کے لیے کرو، کیونکہ اللہ عزوجل قبول نہیں فرماتا مگر وہی عمل جو خالص اس کے لیے کیا گیا ہو اور یہ نہ کہو:یہ اللہ کے لیے اور قریبی رشتہ کے لیے ہے ، کیونکہ یہ پھر قریبی رشتے کے لیے ہوگا، اللہ کے لیے اس میں سے کچھ نہیں ہوگا اور یہ بھی نہ کہو کہ یہ اللہ کے لیے اور تمہارے اکابر کے لیے ہے، کیونکہ یہ تمہارے بڑوں کے لیے ہوگا ، اللہ کے لیے اس میں سے کچھ نہیں ہوگا۔ (شعب الایمان،جلد 9، صفحہ 159، مطبوعہ ریاض)

   فیض القدیر میں مذکورہ حدیث پاک کے تحت  ہے:” فالإخلاص شرط لقبول كل طاعة ولكل عمل من المأمورات“یعنی اخلاص ہر نیکی  اور ہر مامور عمل کے قبول ہونے کے لیے شرط ہے   ۔(فیض القدیر، جلد 1، صفحہ 217، مطبوعہ بیروت)

   حدیقہ ندیہ میں ہے:”(ولا تقولوا ھذا) ای فعل الصدقۃ علی الاقارب او الصلۃ لھم بنحو تحیۃ وسلام وھدیۃ وکلام (للہ ) تعالیٰ  ای تقربا الیہ سبحانہ (وللرحم)ای القرابۃ ایضا(فانھا)ای تلک الصدقۃ والصلۃ انما ھی (للرحم)فقط (ولیس للہ )تعالیٰ (منھا شیئ)اذا وقع الشرکۃ فیھا بین ارادۃ وجہ اللہ تعالیٰ وارادۃ صلۃ الرحم لاجل المخلوق فلا اخلاص فی ذلک للہ تعالیٰ“یعنی یہ نہ کہو کہ اقارب پر یہ صدقہ یا ان کے لیے صلہ رحمی جیسے تحیت، سلام، ہدیہ اور کلام  اللہ تعالیٰ کے لیے یعنی اس  کا قرب حاصل کرنے کے لیے اور قرابت کے لیے بھی ہے ، تو یہ صدقہ و صلہ فقط قرابت کے لیے ہوگا اور اس میں سے اللہ کے لیے کچھ نہ ہوگا ۔ جب رضائے الہٰی کے ارادہ اور مخلوق کے لیے صلۂ رحمی کے ارادہ کے درمیان شرکت واقع ہوگئی، تو اب اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص نہ رہا۔(الحدیقۃ الندیہ، جلد2،صفحہ 461، دار الکتب العلمیۃ )

   بریقہ محمودیہ میں ہے:”(ولیس للہ فیھا شیئ ) فلا یقبل لعدم خلوصہ لہ تعالیٰ“یعنی اس میں اللہ کے لیے کچھ نہ ہوگا، لہٰذا اللہ کے لیے خلوص نہ ہونے کی وجہ سے عمل قبول نہ ہوگا۔(البریقۃ المحمودیۃ، جلد 2، صفحہ 171، مطبعۃ الحلبی)

   علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”الحكم نوعان نوع يتعلق بالآخرة وهو الثواب في الأعمال المفتقرة إلى النية والإثم في الأعمال المحرمة ونوع يتعلق بالدنيا وهو الجواز والفساد والكراهة والإساءة ونحو ذلك والنوعان مختلفان بدليل أن مبنى الأول على صدق العزيمة وخلوص النية فإن وجد وجد الثواب وإلا فلا ومبنى الثاني على وجود الأركان والشرائط المعتبرة في الشرع حتى لو وجدت صح وإلا فلا سواء اشتمل على صدق العزيمة أولا “یعنی حکم کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم وہ جس کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے اور وہ ان اعمال میں ثواب ہے ،جن میں نیت کی حاجت ہوتی ہے اور حرام اعمال میں گناہ ہے اور ایک قسم وہ جس کا تعلق دنیا کے ساتھ ہے اور وہ عمل کا جائز، فاسد ، مکروہ  اور برا ہونا وغیرہ ہے ۔ اور دونوں قسمیں مختلف ہیں اس دلیل سے کہ پہلی قسم کی بنیاد سچے ارادے اور خلوص ِ نیت پر ہے ، پس اگر یہ ہوگا، تو ثواب حاصل ہوگا ورنہ نہیں اور دوسری قسم کی بنیاد  شریعت میں موجود ارکان و معتبر شرائط  پر ہے کہ اگر یہ پائے جائیں گے، تو عمل درست ہوگا ورنہ  نہیں خواہ عمل سچے ارادہ پر مشتمل ہو یا نہ ہو۔(عمدۃ القاری، جلد1، صفحہ 31،مطبوعہ بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم