
مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3614
تاریخ اجراء:30شعبان المعظم 1446ھ/01مارچ2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میری پھوپھی کے شوہر فوت ہو چکے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کی ایک بیٹی اور نواسی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی 3 بیٹیاں شادی شدہ ہیں۔ وہ خود غریب ہیں ماں کو کچھ نہیں دیتیں۔ میری پھوپھی پاکستان میں جس مکان میں رہتی ہیں وہ ان کے شوہر کا تھا۔ پہلے کچا تھا پھر ان کی ہمشیرہ نے بنا کر دیا ہے۔ کیا میں ان کو زکوۃ دے سکتا ہوں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شریعت مطہرہ کا اصول یہ ہے کہ زکوۃ اس شخص کو دی جا سکتی ہے جو قرضے اور حاجت اصلیہ (ضروریات زندگی مثلارہنے کامکان،خانہ داری کاسامان،پہننے کے کپڑےاورکسی پیشے والے کے لیے اس کے اوزار،اہل علم کے لیے ضروری کتابیں) نکال کر ساڑھے 52 تولے چاندی یااس کی رقم یااتنی مالیت کے برابر کسی چیز کا مالک نہ ہو۔ لہذا اگر آپ کی پھوپھی کے پاس حاجت اصلیہ اور قرضہ (اگر ہے تو وہ) نکالنے کے بعدنہ ساڑھے باون تولے چاندی ہے ،نہ اس کے برابر رقم اورنہ اتنی مالیت کی کوئی چیز تو آپ ان کو زکوۃ دے سکتے ہیں۔ اور اگر حاجت اصلیہ اور قرضہ نکالنے کے بعد ان کے پاس ان میں سے کوئی بھی چیزہے یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی ہے یااس کے برابررقم ہے یا اتنی مالیت کی کوئی چیزہے تو پھر وہ زکوۃ کی مستحق نہیں، آپ ان کو زکوۃ نہیں دے سکتے۔
نوٹ:یہ یادرہے کہ اگر آپ کی پھوپھی وغیرہ کوئی قریبی رشتہ دار مستحق زکوۃ ہے تو کسی اجنبی کو زکوۃ دینے کی بجائے ان کو دینا افضل ہے کہ اس میں زکوۃ کی ادائیگی کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے"المصارف (منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة۔۔۔ (ومنها المسكين) وهو من لا شيء له فيحتاج إلى المسألة لقوته أو ما يواري بدنه"ترجمہ: زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک شرعی فقیر ہے یہ وہ ہوتا ہے جس کے پاس کچھ ہوتا تو ہے لیکن نصاب سے کم یا نصاب کی مقدار غیر نامی ہو جو اس کی حاجت میں مستغرق ہو۔اور ایک مسکین،یہ وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لئے اس کا محتاج ہے کہ لوگوں سے سوال کرے۔(فتاوی ہندیہ،ج 1،ص 187،188،دار الفکر،بیروت)
ردالمحتار میں ہے " عن أبي هريرة مرفوعا إلى النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال «يا أمة محمد والذي بعثني بالحق لا يقبل الله صدقة من رجل وله قرابة محتاجون إلى صلته ويصرفها إلى غيرهم والذي نفسي بيده لا ينظر إليه الله يوم القيامة» . اهـ. رحمتي والمراد بعدم القبول عدم الإثابة عليها وإن سقط بها الفرض؛ لأن المقصود منها سد خلة المحتاج وفي القريب جمع بين الصلة والصدقة. وفي القهستاني: والأفضل إخوته وأخواته ثم أولادهم ثم أعمامه وعماته" ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اے امت محمد (صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم ) اس کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا، اللہ پاک کسی شخص کا صدقہ قبول نہیں فرماتا اس حال میں کہ اس کے اہل قرابت صلہ رحمی کے محتاج ہوں اور وہ صدقہ غیروں کو دے اور قسم اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے،قیامت والے دن اللہ پاک اس کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔ (رحمتی) اورقبول نہ ہونے سے مراد اس پر ثواب نہ ملنا ہے، اگرچہ اس سے فرض ساقط ہو جائے گا۔ کیونکہ مقصود محتاج کی حاجت پوری کرنا ہے۔ اور قریبی رشتہ دار کو دینے میں صلہ رحمی اور صدقہ دونوں ہیں۔ اور قہستانی میں ہے: افضل یہ ہے کہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو دے، پھر ان کی اولادوں کو، پھر اپنے چچوں اور پھوپھیوں کو۔( ردالمحتار ، جلد 2 ، صفحہ 353،354 ، دار الفکر ، بیروت )
امام اہلسنت امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:” مصرفِ زکوٰۃ ہر مسلمان حاجتمند ہے جسے اپنے مال مملوک سے مقدار نصاب فارغ عن الحوائج الاصلیہ پر دسترس نہیں بشرطیکہ نہ ہاشمی ہو۔۔۔ اور نصاب مذکورہ پر دسترس نہ ہونا چند صورت کو شامل: ایک یہ کہ سرے سے مال ہی نہ رکھتا ہو اسے مسکین کہتے ہیں۔ دوم مال ہو مگر نصاب سے کم، یہ فقیر ہے، سوم نصاب بھی ہو مگر حوائجِ اصلیہ میں مستغرق، جیسے مدیون۔(فتاوی رضویہ،ج 10،ص 109،110،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
بہارشریعت میں ہے" جو شخص مالک نصاب ہو (جبکہ وہ چیز حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہو یعنی مکان، سامان خانہ داری، پہننے کے کپڑے، خادم، سواری کا جانور، ہتھیار،اہلِ علم کے لیے کتابیں جو اس کے کام میں ہوں کہ یہ سب حاجتِ اصلیہ سے ہیں اور وہ چیز ان کے علاوہ ہو، اگرچہ اس پر سال نہ گزرا ہو اگرچہ وہ مال نامی نہ ہو) ایسے کو زکاۃ دینا جائز نہیں۔"(بہارشریعت،ج01،حصہ05،ص928،مکتبۃ المدینہ)
فتاوی رضویہ میں ہے " آدمی جن کی اولاد میں خود ہے یعنی ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی یا جو اپنی اولاد میں ہیں یعنی بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی اور شوہر و زوجہ ان رشتوں کے سوا اپنے جو عزیز قریب حاجتمند مصرف زکوۃ ہیں، اپنے مال کی زکوۃ انہیں دے جیسے بہن بھائی ، بھتیجا ، بھتیجی، ماموں ، خالہ چچا ، پھوپھی ۔"(فتاوی رضویہ، جلد 10 ، صفحہ 264 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم