
مجیب:مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1956
تاریخ اجراء:08ربیع الاول1446ھ/13ستمبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ایک خاتون نے دوسری خاتون سے بطورِ قرض پانچ ہزار روپے طلب کئے ، تو اس خاتون نے اس کو پانچ ہزار روپے دے دئیے، دیتے وقت یہ نیت تھی کہ واپس نہیں لوں گی پھر اگلے دن رقم دینے والی خاتون کو خیال آیا کہ لینے تو مُجھے ویسے بھی نہیں ہیں،کیوں نہ اس میں زکوٰۃ کی نیت کر لی جائے ، تو پھر اس خاتون نے ان پیسوں میں ایڈوانس زکوٰۃ ادا کرنے کی نیت کرلی، کیا ایسی صورت میں اس خاتون کی زکوٰۃ ادا ہوگئی ؟ نیز کسی کو کوئی چیز دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت نہ ہو اور چیز اس بندے کے پاس موجود ہو، تو کیا اس چیز پر زکوٰۃ کی نیت کرسکتے ہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگلے دن اگر اس خاتون کے پاس وہ رقم موجود ہے اور وہ مستحق زکوٰۃ بھی ہیں اور زکوٰۃ کی نیت کرنے والی خاتون صاحبِ نصاب ہے ،تو اگلے دن ان پیسوں میں زکوٰۃ کی نیت کی جاسکتی ہے ، اگر لینےو الی خاتون وہ رقم خرچ کر چکی یا وہ مستحق زکوٰۃ ہی نہیں ،تو نیت نہیں کر سکتے۔
اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص کے پاس مال زکوٰۃ کے قابل ہے، اُس نے سال گزشتہ کے بعد یکمشت روپیہ مسلمان محتاج کو دیا لیکن اس نے زکوٰۃ کی نیت بر وقت دینے کے نہ کی، نہ اس کے دل میں خیال آیا کہ زکوٰۃ ادا کرتا ہوں، بعد کو خیال آیا ہو تو یہ دیاہوا روپیہ زکوٰۃ میں داخل ہُوا یا نہیں ؟
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جوابا ارشاد فرمایا:”اگر یہ مال محتاج کو دیا ،خالص بہ نیتِ زکوٰۃ الگ رکھا تھا یعنی اس نیت سے جُدا کرکے رکھ چھوڑا کہ اسے زکوٰۃ میں دیں گے، تو جس وقت اس میں سے محتاج کو دیا گیا ،زکوٰۃ ادا ہوگئی، اگر چہ دیتے وقت زکوٰۃ کا خیال نہ آیا اور ایسا نہ تھا ،تووُہ مال جب تک محتاج کے پاس موجود ہے، اب اس میں زکوٰۃ کی نیّت کرلے، صحیح ہوجائے گی، اور اگر اس کے پاس نہ رہا، تو اب نہیں کرسکتا، یہ مال خیرات نفل میں گیا زکوٰۃ جُدا ادا کرے۔درمختار میں ہے: شرط صحۃ ادا ئھانیۃ مقارنۃ للاداء ولوکانت المقارنۃ حکماکما لودفع بلانیۃ ثم نوی والمال قائم فی یداالفقیر اومقارنۃ بعزل ما وجب کلہ او بعضہ ولا یخرج عن العھدۃ بالعزل بل بالاداء للفقراء ۔ صحتِ ادائیگیِ زکوٰۃ کے لئے ادا کے وقت نیت کا متصل ہونا ضروری ہے خواہ اتصالِ حکمی ہو مثلا کسی نے بلا نیت زکوٰۃ ادا کردی اور ابھی مال فقیر کے قبضہ میں ہو، تو نیت کر لی یا کل یا بعض مال برائے زکوٰۃ جدا کرتے وقت نیت کر لی جائے ، باقی جدا کرنے سے ذمہ داری پوری نہیں ہوتی بلکہ فقراء تک پہنچانے سے ہوگی (ت)“(فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ 161، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم