قرض واپس نہ مل رہا ہو تو زکوٰۃ لینا جائز ہے یا نہیں؟

قرض میں دی ہوئی رقم واپس نہ مل رہی ہو تو زکوٰۃ لے سکتے ہیں؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:AQS-2728

تاریخ اجراء:06 رجب المرجب 1446ھ/07 جنوری 2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کے دوسرے پر بطورِقرض 40 لاکھ روپے ہیں، لیکن مقروض کے پاس فی الحال قرض خواہ کو دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور نہ ہی اس سے قرض واپس ملنے کی امید ہے، البتہ مقروض پیسے دینے کا اقرار کر رہا ہے کہ کہ جب ہوں گے، تو دے دوں گا، جبکہ قرض خواہ (جس نے قرض دیا ہوا ہے، اس) کو ابھی پیسوں کی ضرورت ہے اور قرض خواہ کی مالی کنڈیشن یہ ہے کہ یہ خود جاب کرتا ہے اوراس کی سیلری ہر مہینے خرچ ہوجاتی ہے۔ کسی مہینے چار پانچ ہزار بچ جاتے ہیں اور کبھی وہ بھی نہیں بچتے۔ اس کے علاوہ قرض خواہ کے پاس بقدر نصاب حاجت سے زائد کوئی چیز نہیں ہے۔ شرعی رہنمائی فرما دیں کہ اس قرض خواہ کو اگر کوئی زکوٰۃ دے، تو یہ لے سکتا ہے؟ یا پھر اس کا جو قرض دوسرے بندے پر ہے، اس کی وجہ سے یہ زکوٰۃ نہیں لے سکتا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   زکوٰۃسے اسلام کا منشا یہ ہے کہ معاشرے میں پائے جانے والے غریب، بے کس و مجبور افراد کی ضروریات کو پورا کیا جائے، ان لوگوں کے لیے اسلام نے ایک خاص معیار مقرر کیا ہے کہ زکوٰۃ کا مستحق صرف وہی شخص ہے، جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی یا حاجت اصلیہ کے علاوہ اتنی مالیت کی کوئی چیز نہ ہو، اگر کسی کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی یا حاجت اصلیہ سے زائد اتنی مالیت کی کوئی اور چیز ہو، تو ایسا شخص زکوٰۃ نہیں لے سکتا، بلکہ بعض صورتوں میں ایسے شخص پر زکوٰ ادا کرنا لازم ہوجاتا ہے، اور سوال میں بیان کردہ شخص کی ملکیت میں 40 لاکھ روپے ہیں، (اگرچہ فی الحال کسی کو قرض دیے ہوئے ہیں)جو ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت سے کئی گنا زیادہ ہیں، لہٰذا یہ قرض خواہ ہرگز زکوٰۃ نہیں لے سکتا، بلکہ یہ خود صاحبِ نصاب ہے اور جب اس کو قرض کی رقم واپس ملے گی، تو اس رقم کی گزشتہ عرصے کی زکوٰۃ ادا کرنا اس پر لازم ہوگا۔

   یاد رہے کہ عام طور پر لوگ بہت ساری ایسی چیز کو بھی حاجت اور ضرورت سمجھ رہے ہوتے ہیں، جو حقیقتاً حاجت اور ضرورت نہیں ہوتی، جیسا کہ بچوں کی شادی بیاہ کے لیے جہیز اور دیگر چیزوں کے لیے فضول خرچوں کو حاجت اور ضرورت سمجھا جاتا ہے، لہٰذا اس طرح کی چیزیں ہرگز ضرورت میں نہیں داخل نہیں ہوں گی، ہاں جس کا تعلق ضروریاتِ زندگی کے اخراجات یعنی کھانے ، پہننے اور رہنے کے مکان سے ہو، جن کا پورا کرنا ضروری اور ان کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے، ایسی ضرورت درپیش ہو، تو پھر بھی سوال میں بیان کردہ شخص کے لیے بہتر ہے کہ کسی سے ادھار لے کر اپنی ضرورت پوری کر سکتا ہے، تو ادھار لے کر ضرورت پوری کر لے، ورنہ اگر واقعتاً شدید حاجت ہو اور کوئی شخص خود سے اسے زکوٰۃ دے، تو صرف  حقیقی ضرورت کے مطابق زکوٰۃ لے سکتا ہے، خود کسی سے مانگنے کی کی اجازت تو بہت ہی مشکل صورت میں ہوتی ہے۔

   سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: غنی کے لیے زکوٰۃلینا جائز نہیں ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الزکوٰۃ، باب من سأل عن ظھر غنی، جلد 1، صفحہ  589، مطبوعہ بیروت)

   اس کی شرح میں علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: في المحيط الغنى على ثلاثة أنواع: غنى يوجب الزكاة وهو ملك نصاب حولى تام، وغنى يحرم الصدقة ويوجب صدقة الفطر والأضحية وهو ملك ما يبلغ قيمة نصاب من الأموال الفاضلة عن حاجته الأصلية، وغنى يحرم السؤال دون الصدقة وهو أن يكون له قوت يومه وما يستر عورته“ ترجمہ: محیط میں ہے کہ غنیٰ(مالداری ) کی تین قسمیں ہیں: (1) جس سے زکوٰۃ لازم ہوتی ہے ، یعنی نصاب کے برابرملکیت ہونا اور اس پر مکمل ایک سال گزرجانا۔ (2) جس سے زکوٰۃ لینا حرام ہوتا ہے، جبکہ صدقہ فطر اور قربانی لازم ہوجاتی ہے اور وہ حاجت اصلیہ سے زائد نصاب کے برابر مالیت کا مالک ہونا ہے۔ (3) جس کی وجہ سے سوال کرنا حرام ہوتا ہے، زکوٰۃ لینا حرام نہیں ہوتا اور وہ ایک دن کے کھانے اور قابلِ ستر چیز کا مالک ہونا ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الزکوٰۃ، باب من لاتحل لہ الصدقۃ، جلد 4، صفحہ 1305، مطبوعہ بیروت)

   صاحبِ نصاب کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی، چنانچہ ملتقی الابحر اور مجمع الانہر میں ہے: (ولا) تدفع (إلى غني يملك نصابا من أي مال كان) سواء كان من النقود أو السوائم أو العروض وهو فاضل عن حوائجه الأصلية ترجمہ: غنی کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی، جو نصاب کے برابر کسی بھی مال کا مالک ہو، خواہ وہ نقدی ہو یا سائمہ جانور ہو ، یاحاجت اصلیہ سے زائد سامان ہو۔(مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر، کتاب الزکوٰۃ، فی باب احکام المصرف، جلد 1، صفحہ 223، مطبوعہ بیروت)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”جو شخص مالکِ نصاب ہو (جبکہ وہ چیز حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہو یعنی مکان، سامان خانہ داری، پہننے کے کپڑے، خادم، سواری کا جانور، ہتھیار،اہلِ علم کے لیے کتابیں جو اس کے کام میں ہوں کہ یہ سب حاجتِ اصلیہ سے ہیں اور وہ چیز ان کے علاوہ ہو، اگرچہ اس پر سال نہ گزرا ہو اگرچہ وہ مال نامی نہ ہو) ایسے کو زکاۃ دینا جائز نہیں۔    اور نصاب سے مرادیہاں یہ ہے کہ اُس کی قیمت دو سو ۲۰۰ درم ہو، اگرچہ وہ خود اتنی نہ ہو کہ اُس پر زکاۃ واجب ہو مثلاً چھ تولے سونا جب دو سو ۲۰۰ درم قیمت کا ہو تو جس کے پاس ہے اگرچہ اُس پر زکاۃ واجب نہیں کہ سونے کی نصاب ساڑھے سات تولے ہے، مگر اس شخص کو زکاۃ نہیں دے سکتے۔(بھارِ شریعت، حصہ 5، جلد 1، صفحہ928، 929، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   ایسے شخص کو جب قرض واپس ملے گا ، تو خود اس پر گزشتہ عرصے کی زکوٰۃ لازم ہوگی، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے: وإن كان المديون مقرا بالدَين لكنه مفلس فإن لم يكن مقضيا عليه بالإفلاس تجب الزكاة فيه في قولهم جميعا۔۔۔ وإن كان مقضيا عليه بالإفلاس فكذلك في قول أبي حنيفة وأبي يوسفترجمہ: اگر مدیون(مقروض) قرض کا اقرار کر رہا ہے، لیکن وہ مفلس ہے، تو اگر اس کے مفلس ہونے کا قاضی نے فیصلہ نہیں کیا ، تو تمام فقہائے کرام کے قول کے مطابق اس پر  زکوٰۃ لازم ہوگی  اور اگر اس پر افلاس کا حکم لگا دیا گیا ہو،  پھر بھی امام اعظم ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہما کے نزدیک اس پر زکوٰۃ لازم ہوگی۔(بدائع الصنائع، کتاب الزکوٰۃ، جلد 2، صفحہ 9، مطبوعہ بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے:”جو مال کسی پر دَین (قرض)ہو، اس کی زکاۃ کب واجب ہوتی ہے اور ادا کب؟ اس میں تین صورتیں ہیں: اگر دَین قوی ہو، جیسے قرض جسے عرف میں دستگرداں کہتے ہیں اور مالِ تجارت کا ثمن مثلاً کوئی مال اُس نے بہ نیتِ تجارت خریدا، اُسے کسی کے ہاتھ اُدھار بیچ ڈالا یا مالِ تجارت کا کرایہ مثلاً کوئی مکان یا زمین بہ نیّت تجارت خریدی، اُسے کسی کو سکونت یا زراعت کے لیے کرایہ پر دے دیا، یہ کرایہ اگر اُس پر دَین ہے تو دَین قوی ہوگا اور دَین قوی کی زکاۃ بحالتِ دَین ہی سال بہ سال واجب ہوتی رہے گی، مگر واجب الادا اُس وقت ہے جب پانچواں حصہ نصاب کا وصول ہو جائے، مگر جتنا وصول ہوا اتنے ہی کی واجب الادا ہے یعنی چالیس درم وصول ہونے سے ایک درم دینا واجب ہوگا اور اسّی ۸۰ وصول ہوئے تو دو،وعلیٰ ہذا القیاس۔(بھارِ شریعت، حصہ 5، جلد 1، صفحہ905، 906، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   وقار الفتاوی میں ہے :”جس شخص کے پاس سونا ، چاندی اور نقدی روپے ملا کر ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر پونجی ہو جائے، وہ صاحبِ نصاب ہے، اس پر خود زکوٰۃ دینا فرض ہے، لہٰذا ایسے شخص کو زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی۔“(وقار الفتاوی، جلد2، صفحہ 416، مطبوعہ بزم وقار الدین، کراچی)

   کسی کو قرض دیا ہو اور خود کو پیسوں کی ضرورت ہو ، تو زکوٰۃ کی بجائے کسی سے ادھار لینا بہتر ہوتا ہے، جیسا کہ بحر الرائق میں ہے: ”وفي الظهيرية الاستقراض لابن السبيل خير من قبول الصدقة“ ترجمہ: ظہیریہ میں ہے کہ ابن السبیل (مسافر ) کے لیے زکوٰۃ لینے سے بہتر کسی سے قرض لینا ہے۔(البحر الرائق، کتاب الزکاۃ، باب المصرف، جلد 2، صفحہ 422، کوئٹہ)

   شدید حاجت ہو، تو بقدرِضرورت زکوٰۃ لینے کی اجازت ہے، چنانچہ فتاوی قاضی خان میں ہے: ”والذی لہ دین مؤجل علی انسان اذا احتاج الی النفقۃ جاز لہ ان یاخذ من الزکاۃ قدر کفایتہ  الی حلول الاجل“ ترجمہ: جس کا کسی انسان پر ایک مقرر وقت تک کے لیے قرض ہو، اسے جب نفقہ کی ضرورت ہو، تو اس کے لیے قرض کی مدت آنے تک اپنی ضرورت پوری ہونے کے مطابق زکوٰۃ لینا، جائز ہے۔(فتاوی قاضی خان، جلد 1، صفحہ 234، مطبوعہ کراچی)

   ضرورت سے مراد ضروریاتِ زندگی کے وہ اخراجات ہیں، جن کا پورا کرنا ضروری اور ان کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ منحۃ الخالق میں ہے: ”والحاجۃ داعیۃ الی ما لا بد منہ“ ترجمہ :ضرورت سے مراد وہ ہے جسے پورا کیے بغیر گزارہ نہ ہو۔(منحۃ الخالق علی البحر الرائق، جلد 2، صفحہ 422، مطبوعہ کوئٹہ)

   ایسے شخص کے لیے ضرورت سے زیادہ نہ لینے ، اسی طرح قرض مل سکتا ہو، تو قرض لینے کے متعلق فتاویٰ شامی میں ہے :”ولا يحل له أي لابن السبيل أن يأخذ أكثر من حاجته والاولیٰ لہ ان یستقرض ان قدر“ ترجمہ: (شدید حاجت کی صورت میں)  مسافر کے لیے حاجت سے زیادہ زکوٰۃ لینا جائز نہیں (لیکن پھر بھی) اگر وہ کسی سے قرض لے سکتا ہے، تو بہتر یہ ہے کہ قرض لے کر اپنی ضرورت پوری کر لے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الزکاۃ، باب مصرف الزکاۃ، جلد3، صفحہ 340، کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم