
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا سبزیوں اور پھلوں پر عشر ہوتا ہے؟ تفصیلا جواب عنایت فرما دیجئے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جو چیزیں ایسی ہوں کہ ان کی پیداوار سے زمین کا نفع حاصل کرنا مقصود ہو، خواہ وہ غلہ، اناج اور پھل فروٹ ہوں یاسبزیاں وغیرہ اناج اورغلہ میں گندم، جو، چاول، گنا، کپاس، چاول وغیرہ۔ اور پھلوں میں خربوزہ، آم، امرود، مالٹا، وغیرہ، اور سبزیوں میں ککڑی، ٹینڈا، کریلا، بھنڈی توری، آلو، ٹماٹر وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب کی پیداوار میں سے عشر(یعنی دسواں حصہ جبکہ بارش وغیرہ کے پانی سے سیراب ہو) یا نصف عشر ( یعنی بیسواں حصہ جبکہ ٹیوب ویل وغیرہ کے پانی سے سیراب ہو)واجب ہے۔
نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
”فيما سقت الأنهار و الغيم العشور و فيما سقي بالسانية نصف العشر“
ترجمہ: جن زمینوں کو نہریں اور بارش سیراب کرے ان میں عشر(دسواں حصہ واجب) ہے اور جو زمینیں اونٹ پر پانی لا کر سیراب کی جائیں ،ان میں نصف عشر (بیسواں حصہ واجب)ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الزکوۃ، جلد 1، صفحہ 372، مطبوعہ: لاہور)
فتاوی ہندیہ میں ہے
"زكاة الزرع فرض، شرط المحلية، و هو أن تكون عشرية و وجود الخارج، و أن يكون الخارج منها مما يقصد بزراعته نماء الأرض هكذا في البحر الرائق،ملتقطاً"
ترجمہ: کھیتی کی زکوٰۃ (یعنی عشر) کی ادائیگی فرض ہے، اور محل کے اعتبار سے ادائیگی لازم ہونے کی شرط یہ ہے کہ زمین عشری ہو اور پیدوار کا حصول ہو،اور اس پیدوار کی زراعت سے زمین کی منفعت حاصل کرنا مقصود ہو،یونہی بحر الرائق میں ہے۔ (فتاوی ہندیہ، ج 1، ص 185 ، 186، دار الفکر، بیروت)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے
"و يجب العشر عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - في كل ما تخرجه الأرض من الحنطة و الشعير و الدخن والأرز، و أصناف الحبوب و البقول و الرياحين و الأوراد و الرطاب و قصب السكر و الذريرة و البطيخ و القثاء و الخيار و الباذنجان و العصفر، و أشباه ذلك مما له ثمرة باقية أو غير باقية قل أو كثر هكذا في فتاوى قاضي خان سواء يسقى بماء السماء أو سيحا يقع في الوسق أو لا يقع هكذا في شرح الطحاوي ويجب في الكتان وبذره؛ لأن كل واحد منهما مقصود كذا في شرح المجمع. و يجب في الجوز و اللوز و الكمون و الكزبرة هكذا في المضمرات."
ترجمہ: امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے نزدیک زمین سے پیدا ہونے والی ہر چیز میں عشر ہے یعنی گندم، جو، باجرا، چاول،اور مختلف قسم کے اناج، سبزیوں، ترکاریوں، خوشبودار پودوں، گلاب کے پھولوں، کھجوروں، گنے، مکئی، خربوزے، کھیرے، ککڑی، بینگن، زعفران، اور ان جیسی دیگر چیزوں میں جن کا پھل باقی رہنے والا ہو یا نہیں، کم ہو یا زیادہ، اسی طرح فتاوی قاضی خان میں ہے، خواہ وہ بارش کے پانی سے سیراب ہوئی ہو یا نہری پانی سے، وسق تک پہنچے یا نہ پہنچے، ایساہی شرح الطحاوی میں ہے۔ اور سن اور اس کے بیج میں بھی عشر واجب ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک مقصود ہوتا ہے، اسی طرح شرح المجمع میں ہے۔ اور اخروٹ، بادام، زیرہ اور دھنیا میں بھی عشر واجب ہے، اسی طرح المضمرات میں ہے۔ ( فتاوی ہندیہ ، کتاب الزکوۃ ، جلد 1، صفحہ 186، مطبوعہ: کوئٹہ)
اور کب عشر اور کب نصف عشر لازم ہوگا:
کون سی زمین کی پیداوار پر عشر یا نصف عشر لازم ہو گا، اس کا معیار اور نقلی و فقہی دلیل بیان کرتے ہوئے ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:
”فما سقی بماء السماء او سقی سیحا ففیہ عشر کامل وما سقی بغرب او دالیۃ او سانیۃ ففیہ نصف العشر و الأصل فيه ما روي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم… و لأن العشر وجب مؤنة الأرض فيختلف الواجب بقلة المؤنة و كثرتها“
ترجمہ: جو زمین آسمان یا نہر اور دریا کےپانی سے سیراب ہو، اس میں مکمل عشر واجب ہے اور جو زمین ڈول یا اونٹ کے ذریعےپانی لا کر سیراب کی جائے، اس میں نصف عشر ہے، اس میں اصل وہ حدیث پاک ہے جو رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ سے مروی ہے…… اور اس لیے کہ عشرزمین کو سیراب کرنے کی مشقت کے اعتبار سے واجب ہوتاہے، لہٰذا مشقت کے کم اور زیادہ ہونے کے اعتبار سے واجب بھی مختلف ہوگا۔ (بدائع الصنائع، جلد 2، صفحہ 512، مطبوعہ: کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے "جو کھیت بارش یا نہر نالے (یعنی فری) کے پانی سے سیراب کیا جائے، اس میں عشر یعنی دسواں حصہ واجب ہے اور جس کی آبپاشی چرسے یا ڈول سے ہو(یعنی پانی خرید کر فصل کو لگایا گیا ہو، تو)، اس میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ واجب اور پانی خرید کر آبپاشی ہو یعنی وہ پانی کسی کی مِلک ہے، اُس سے خرید کر آبپاشی کی جب بھی نصف عشر واجب ہے اور اگر وہ کھیت کچھ دنوں مینھ کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور کچھ دنوں ڈول چر سے سے تو اگر اکثر مینھ کے پانی سے کام لیا جاتا ہے اور کبھی کبھی ڈول چرسے سے تو عشر واجب ہے، ورنہ نصف عشر۔" (بہار شریعت، جلد 1، صفحہ 917، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3933
تاریخ اجراء: 21 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ/ 18 جون 2025 ء