
مجیب:ابو تراب محمد علی عطاری
مصدق:مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر:Pin-7564
تاریخ اجراء:04 رمضان المبارک 1446 ھ/05 مارچ 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ساداتِ کرام اور بنو ہاشم کو زکوۃ نہیں دے سکتے،اس کی وجہ کیا ہے؟ نیز کیا یہ اپنی زکوۃ اپنے رشتہ داروں کو دے سکتے ہیں؟
سائل: محمد بدر الدین (جوہر ٹاؤن، لاہور)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
ائمہ اربعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ساداتِ کرام اور بنو ہاشم کو زکوٰۃ دینا حرام ہے۔ اب دینے والا چاہے سید ہو یا ہاشمی یا ان کے علاوہ کوئی اور، بہر صورت حکم یکساں ہے، لہٰذا سید/ ہاشمی اپنی زکوۃ دوسرے سید/ ہاشمی کو بھی نہیں دے سکتے، اگر دیں گے، تو ادا ہی نہیں ہو گی۔ بنو ہاشم سے مراد پانچ خاندان ہیں: آلِ علی، آلِ عباس، آلِ جعفر، آلِ عقیل، آلِ حارث بن عبدالمطلب (رضوان اللہ علیہم اجمعین)۔
نیز ان کے لئے زکوۃ و صدقاتِ واجبہ لینے کی ممانعت کسی اور وجہ سے نہیں، بلکہ ان کے اعلیٰ نسب اور شان بلند ہونے کی بناء پر ہے، کیونکہ زکوۃ وغیرہ مال کا میل اور گناہوں کا دھوون ہے اور یہ ان نفوسِ قدسیہ کے شایانِ شان نہیں اور پھر مال کی اس ظاہری کمی کے بدلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں عظیم بشارت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں روزِ حشر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کروں گا۔
کنز العمال میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’يا بني عبد المطلب! ان الصدقۃ اوساخ الناس، فلا تاکلوھا‘‘ ترجمہ: اے بنی عبد المطلب! بے شک صدقہ لوگوں کی میل ہے، پس تم اسے نہ کھاؤ۔(کنز العمال، جلد 6، صفحہ 458، مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)
ہدایہ شریف میں ہے: ’’لا تدفع الی بنی ھاشم لقولہ علیہ الصلوۃ و السلام: یا بنی ھاشم! ان اللہ تعالی حرم علیکم غسالۃ و اوساخھم‘‘ ترجمہ: زکوۃ بنو ہاشم کو نہ دی جائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس فرمان کی وجہ سے کہ: اے بنی ہاشم! اللہ تعالیٰ نے تم پر لوگوں کا دھوون اور ان کی میل حرام فرما دی ہے۔ (ھدایہ، کتاب الزکوۃ، جلد 1، صفحہ 223، مطبوعہ لاھور)
امام عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اجمعوا علی تحریم الصدقۃ المفروضۃ علی بنی ھاشم و بنی عبد المطلب و ھم خمس بطون: آل علی و آل العباس و آل جعفر و آل عقیل و آل الحارث بن عبد المطلب‘‘ ترجمہ: ائمہ اربعہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ بنوہاشم اور بنو عبد المطلب پر فرض (یا واجب) صدقہ حرام ہے اور وہ پانچ خاندان ہیں: آل علی، آل عباس، آل جعفر، آل عقیل، آل حارث۔ (المیزان الکبری، جلد 2، صفحہ 261، مطبوعہ عالم الکتب،بیروت)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’زکوۃ ساداتِ کرام وسائربنی ہاشم پر حرامِ قطعی ہے،جس کی حرمت پرہمارے ائمۂ ثلاثہ، بلکہ ائمۂ مذاہبِ اربعہ رضی اللہ عنھم اجمعین کا اجماع قائم (ہے)۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 99، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
ایک سید یا ہاشمی دوسرے سید یا ہاشمی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ فتاوی رضویہ میں ہے: ”زکوٰۃ کے لیے شریعتِ مطہرہ نے مصارف معین فرما دئے ہیں اور جن جن کو دینا جائزہے صاف بتادئے، اس کے رشتہ داروں میں وُہ لوگ جنھیں دینے سے ممانعت ہے ہرگز استحقاق نہیں رکھتے، نہ اُن کے دئیے زکوٰۃ ادا ہو جیسے اپنے غنی بھائی یا فقیر بیٹے کو دینا، یونہی اپنا قریب ہاشمی کہ شریعت مطہرہ نے بنی ہاشم کو صراحۃً مستثنیٰ فرمالیا ہے اور بیشک نصوص مطلق ہیں۔۔۔تو بیشک حکم احادیث ہاشمیوں پر مطلق زکوٰۃ کی تحریم ہے خواہ ہاشمی کی ہو یا غیر ہاشمی کی۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ288 تا 289، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
صدرالشریعۃمفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”بنی ہاشم کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے، نہ غیراُنہیں دے سکے، نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو۔“ (بھار شریعت، حصہ 5، صفحہ 931، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
ممانعت پر بشارت دیتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’اصبروا على انفسكم يا بني هاشم! فانما الصدقات غسالات الناس وانما اريد ان استوهبكم من الله يوم القيامة‘‘ ترجمہ: اے بنی ہاشم! صدقات لینے سے رکے رہو، بے شک صدقات لوگوں کا دھوون ہیں اور میں قیامت والے دن اللہ عزوجل کی بارگاہ میں تمہاری بخشش طلب کر وں گا۔(الاموال لابن زنجویہ، جلد 3، صفحہ 1147، مطبوعہ السعودیہ)
بدائع الصنائع میں ہے: ’’انها من غسالة الناس فيتمكن فيها الخبث، فصان الله تعالى بني هاشم عن ذلك تشريفا لهم و اكراما و تعظيما لرسول الله صلى الله عليه و سلم‘‘ ترجمہ: یہ (صدقہ واجبہ) لوگوں کا دھوون ہے، پس اس میں میل سرایت کئے ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے بنی ہاشم کو ان کے شرف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم و تکریم کی خاطر اس سے محفوظ رکھا۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ، جلد 2، صفحہ 49، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے: ’’بنی ہاشم کو زکوۃ وصدقاتِ واجبات دینا زنہار(ہرگز)جائزنہیں، نہ انہیں لینا حلال۔ سید عالم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے متواترحدیثیں اس کی تحریم میں آئیں اور علتِ تحریم ان کی عزت وکرامت ہےکہ زکوۃ مال کا میل ہے اور مثل سائر صدقات واجبہ غاسلِ ذنوب، توان کا حال مثل ماءمستعمل ہے، جو گناہوں کی نجاسات اور حدث کے قاذورات دھو کر لایا، ان پاک لطیف ستھرے لطیف اہلِ بیت طیّب وطہارت کی شان اس سےبس ارفع و اعلیٰ ہے کہ ایسی چیزوں سے آلودگی کریں، خوداحادیث صحیحہ میں اس علت کی تصریح فرمائی۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 272، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
البتہ اگر ساداتِ کرام و ہاشمی گھرانے میں کسی فرد کو مدد کی حاجت ہو، تو ممکنہ صورت میں زکوۃ اور صدقات ِ واجبہ کے علاوہ دیگر اموال سے اس کی مدد کی جائے اور اسے اپنے لئے باعث شرف سمجھا جائے کہ یہ عین سعادت مندی ہے۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم