
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:HAB-0505
تاریخ اجراء:01 شعبان المعظم 1446 ھ/ 31 جنوری 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آج سے ایک سال قبل میری شادی میں میرے بڑے بھائی نے مجھے دو تولہ سونا اور پچاس ہزار روپے بطورِ تحفہ دئیے تھے، پچاس ہزار روپے تو چھ سات ماہ میں ہی ختم ہوگئے اور اس دوران میری پھوپھی نے مجھے چاندی کی (Ring) گفٹ دی، اب سال مکمل ہوگیا ہے،لیکن میرے پاس صرف وہی دو تولہ سونا اور چاندی کی(Ring)ہے۔سونا تو استعمال میں بالکل نہیں ہے، ہاں! چاندی کی (Ring) استعمال میں ہے، ان کے علاوہ کوئی رقم وغیرہ موجود نہیں۔ البتہ شوہر خرچے کیلئے جو رقم دیتے ہیں وہ ضروریات میں استعمال ہوجاتی ہے ۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا مجھ پر ان دو تولہ سونے کی زکاۃ لازم ہوگی؟ کیونکہ چاندی کی (Ring) تو میرے استعمال میں ہے، نیز یہ بھی بتادیں کہ اب دوبارہ سال کا آغاز کب سے مانا جائے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جس دن آپ دو تولہ سونے اور پچاس ہزار روپے کی مالک بنیں، اسی دن سے آپ کی زکوٰۃ کا سال شروع ہوگیا، کیونکہ یہ دونوں نصاب زکوٰۃیعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہیں، لہٰذا درمیان ِ سال میں جو پچاس ہزار روپے خرچ ہوگئے، اس سے نصاب پر اثر نہیں پڑے گا بلکہ سال مکمل ہونے پر آپ چونکہ دو تولہ سونا اورچاندی کی (Ring) کی مالک ہیں، جو مل کر بلاشبہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہیں، لہٰذا آپ پر ان سب کی زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے۔
سونا چاندی کے زیور استعمال میں ہوں یا نہ ہوں، بہرحال ان کی زکوٰۃ لازم ہوتی ہے، چنانچہ امام اہلسنت علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ”اگر چہ پہننے کا زیور ہو (اس پر بھی زکوۃ لازم ہے) زیور پہننا کوئی حاجت اصلیہ نہیں۔“(فتاوی رضویہ، ج 10، ص 129، رضا فاونڈیشن)
اموالِ زکوٰۃ نصاب سے کم ہوں، تو زکوٰۃ کیلئے ان کو ملانے کے متعلق، امام فخر الدين زیلعی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ”تضم قيمة العروض إلى الذهب و الفضة و يضم الذهب إلى الفضة بالقيمة فيكمل به النصاب لأن الكل جنس واحد لأنها للتجارة“ ترجمہ: سامان کی قیمت کو سونا چاندی کے ساتھ اور سونے کو چاندی کے ساتھ قیمت کے اعتبار سے ملایا جائے گا تاکہ اس سے نصاب مکمل ہوجائے، کیونکہ یہ سب ایک جنس ہیں کہ سب ہی تجارت کیلئے ہیں۔(تبیین الحقائق، ج 01، ص 281، المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)
سال گزرنے کے بعد ادائیگئ زکوٰۃ میں تاخیر جائز نہیں، چنانچہ امام اہلسنت علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ”حولانِ حول (یعنی زکوٰۃ کا سال پورا ہو جانے)کے بعد ادائے زکوٰۃ میں اصلاً تاخیر جائز نہیں، جتنی دیر لگائے گا، گناہ گار ہو گا۔“(فتاویٰ رضویہ، ج 10، ص 202، رضا فاؤنڈیشن)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم