ٹیکس کی رقم کو زکوٰۃ میں شمار کرنا کیسا؟

ٹیکس کی رقم کو زکوٰۃ میں شمار کرنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور میری تنخواہ سے بہت زیادہ ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے، تو کیا میں اس کٹنے والی رقم کو زکاۃ شمار کر سکتا ہوں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ٹیکس کی مد میں کاٹی جانے والی رقم کو بطور زکاۃ شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے مالِ زکوٰۃ کا مستحقینِ زکوٰۃ کو مالک بنانا ضروری ہوتا ہے، جبکہ ٹیکس کی مد میں کاٹی جانے والی رقم میں اس کالحاظ نہیں ہوتا۔

زکوٰۃ کا رکن فقیرِ شرعی کو مالک بنانا ہے، جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے:

”و قد امر اللہ تعالی الملاک بایتاء الزکاۃ لقولہ عز وجل ﴿ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ و الایتاء ھو التملیک“

ترجمہ: اللہ تعالی نے مال والوں کو زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمانِ باری عزوجل ہے:

﴿وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ﴾

(یعنی زکوٰۃ دو) اور ایتاء یعنی دینے کا مطلب مالک کر دینا ہی ہوتا ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ، فصل رکن الزکاۃ، ج 2، ص 39، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

وقار الفتاوی میں ہے ”حکومت مالِ زکوٰۃ وصول کرکے جس طرح خرچ کرتی ہے، وہ صحیح نہیں ہے، زیادہ روپیہ ایسی جگہ خرچ کیا جاتا ہے، جہاں کوئی مالک نہیں ہوتا ہے، لہذا زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی ہے۔ (وقار الفتاوی، ج 2، ص 414، بزمِ وقار الدین، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3826

تاریخ اجراء: 14 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 12 مئی 2025 ء