
مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3654
تاریخ اجراء:12 رمضان المبارک 1446 ھ/ 13 مارچ 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر ایک شخص بیچنے کی نیت سے پلاٹ خریدے اور پھر کچھ عرصے بعد کہے کہ میں یہ پلاٹ اپنی بچی کو شادی میں گفٹ کروں گا،تو کیا اس پلاٹ پر زکوۃ ہوگی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جس وقت سے اس شخص نے بیچنے کی نیت سے خرید ہوئے پلاٹ کے متعلق یہ نیت کی ہے کہ میں یہ پلاٹ اپنی بچی کوگفٹ کروں گا، اس وقت سے یہ پلاٹ مال تجارت ہونے سے نکل گیاکہ اس نے تجارت ترک کرنے کی نیت کرلی، لہذااس کے بعدسے اس پرزکاۃ لازم نہیں ہوگی، البتہ! اس سے پہلے تک زکاۃ کی شرائط پائے جانے کی صورت میں اس پرزکاۃ لازم تھی۔
مبسوط سرخسی میں ہے "و ما كان عنده من المال للتجارة فنواه للمهنة خرج من أن يكون للتجارة؛ لأنه نوى ترك التجارة وهو تارك لها للحال فاقترنت النية بالعمل‘‘ ترجمہ: جو مال اس کے پاس تجارت کے لیے تھا، پھر اس نے اس مال میں کسی پیشے کے لیے کرنے کی نیت کر لی تو وہ مال تجارت سے نکل گیا، کیونکہ اس نے تجارت چھوڑنے کی نیت کی اور وہ فی الحال تجارت چھوڑ چکا ہے، تو نیت عمل کے ساتھ مل گئی۔ (مبسوط سرخسی، جلد 2، صفحہ 198، دار المعرفۃ، بیروت)
الاشباہ و النظائر میں ہے "لو نوى ما للتجارة أن يكون للخدمة كان للخدمة و إن لم يعمل بخلاف عكسه، و هو ما إذا نوى فيما كان للخدمة أن يكون للتجارة لا يكون للتجارة حتى يعمل لأن التجارة عمل، فلا تتم بمجرد النية، و الخدمة ترك التجارة فتتم بها. قالوا و نظيره المقيم و الصائم و الكافر و المعلوفة و السائمة. حيث لا يكون مسافرا و لا مفطرا و لا مسلما و لا سائمة بمجرد النية، و يكون مقيما و صائما و كافرا بمجرد النية لأنها ترك العمل، كما ذكره الزيلعي" ترجمہ: اگر کوئی چیز تجارت کے لیے ہو اور نیت کرے کہ وہ خدمت کے لیے ہوگی، تو وہ خدمت کے لیے شمار ہوگی اگرچہ اس پر عمل نہ کرے۔ بر خلاف اس کے عکس کے، وہ یہ کہ اگر کوئی چیز خدمت کے لیے ہو اور نیت کرے کہ وہ تجارت کے لیے ہو، تو وہ تجارت کے لیے شمار نہیں ہوگی جب تک کہ اس پر عمل نہ کرے، کیونکہ تجارت ایک عملی کام ہے جو صرف نیت سے مکمل نہیں ہوتا،جبکہ خدمت کا مطلب تجارت کو ترک کرنا ہے، جو صرف نیت سے مکمل ہو جاتا ہے۔ فقہائے کرام نے فرمایا کہ اس کی نظیر مقیم، روزہ دار، کافر اور چارہ کھانے والا اور چرائی پرچھوڑاہوا (سائمہ) جانور ہے کہ جس طرح کوئی شخص محض نیت سے مسافر، افطار کرنے والا، مسلمان اورسائمہ جانور( چرائی پرچھوڑاہوا) نہیں بن سکتا، جبکہ محض نیت سے کوئی شخص مقیم، روزہ داراورکافر بن جاتا ہے، کیونکہ یہ عمل کا ترک ہے (جوفقط نیت سے ہی مکمل ہوجاتاہے ) جیسا کہ زیلعی نے بیان کیا ہے۔ (الاشباہ و النظائر، جلد 1، صفحہ 22، دار الكتب العلمية، بيروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم