زکوٰۃ کے پیسوں سے جہیز دینے کا شرعی حکم

زکوٰۃ کے پیسوں سے جہیز کا سامان بنوانا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا کسی لڑکی کو اس کے جہیز کا سامان کل یا کچھ چیزیں زکوۃ کے پیسوں سے دلوانا جائز ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اگر وہ لڑکی شرعی فقیر ہے اور سیدہ یا ہاشمیہ بھی نہیں ہے (علوی اور اعوان بھی ہاشمی خاندان میں شامل ہیں) اور اپنی فروع سے بھی نہیں (یعنی زکاۃ دینے والے کی اولاد میں سے نہیں جیسے اس کی بیٹی یا پوتی، پڑپوتی، نواسی، پرنواسی وغیرہ نہیں) تو اس کو زکوۃ دے سکتے ہیں، اب چاہے اسے زکوۃ میں رقم دے دیں یا سامان خرید کردے دیں، سامان کی صورت میں جتنا سامان دینا ہے اس کی جو مارکیٹ ویلیو ہوگی وہ زکوۃ میں شمار ہوگی، لانے لیجانے میں جو کرایہ وغیرہ آئے گا، وہ شامل نہیں ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ اولا رقم کا اسے مالک بنادیا جائے اور پھر اس کی اجازت سے اس سے رقم لے کر اس کا سامان لے کردے دیا جائے۔

نوٹ: شرعی فقیر وہ ہوتا ہے جس کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ نصاب کو پہنچ جائے یا نصاب کے برابر تو ہو مگر اس کی ضرویات زندگی میں گھِرا ہوا ہو یا اتنامقروض ہو کہ قرضہ نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔ (نصاب سے مراد ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی رقم کے برابر کسی قسم کا مال ہے۔)

فقیرِ شرعی کے معیار کے متعلق تنویر الابصار اور در مختار میں ہے

"مصرف الزكوٰۃ و العشر۔۔۔ فقير، و هو من له أدنى شيء أي ‌دون ‌نصاب أو قدر نصاب غير تام مستغرق في الحاجة"

ترجمہ: زکوٰۃ اور عشر کا مَصْرَف فقیر ہے اور فقیر وہ ہوتا ہے کہ جس کے پاس تھوڑا بہت مال ہو، مگر نصاب کی مقدار سے کم ہو، یا نصاب کی مقدار تو ہو، مگر تام نہ ہو یعنی حاجتِ اصلیہ میں استعمال ہو رہا ہو۔ (تنویر الابصار و در مختار مع ردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ، باب المصرف، جلد 3، صفحہ 333، مطبوعہ: کوئٹہ)

فتح القدیر میں ہے

”(و لا يدفع المزكي زكاته إلى أبيه وجده و إن علا) الأصل أن كل من انتسب إلى المزكي بالولاد أو انتسب هو له به لا يجوز صرفها له“

ترجمہ: اور زکوٰۃ دینے والا اپنے و الداور دادا کو، اگرچہ اوپر تک کوئی بھی ہو، اسے اپنی زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ اس سلسلہ میں قاعدہ یہ ہےکہ ہر وہ شخص جو ولادت کی وجہ سے زکوٰۃ دینے والے کی طرف منسوب ہو یا زکوٰۃ لینے والا ولادت کی وجہ سے اس دینے والے کی طرف منسوب ہو، تو اسے زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ (فتح القدیر، ج 2، ص 269، دار الفکر، بیروت)

فتاوٰی رضویہ میں ہے"زکوٰۃ ساداتِ کرام و سائرِ بنی ہاشم پر حرامِ قطعی ہے جس کی حرمت پر ہمارے ائمہ ثلٰثہ بلکہ ائمہ مذ اہبِ اربعہ رضی اﷲتعالٰی عنہم اجمعین کا اجماع قائم۔" (فتاوٰی رضویہ، ج 10، ص 99، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: "زکوٰۃ میں روپے وغیرہ کہ عوض بازار کے بھاؤ سے اس قیمت کا غلّہ مکّا وغیرہ محتاج کو دے کر بہ نیت زکوٰۃ مالک کردینا جائز و کافی ہے، زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، مگر جس قدر چیز محتاج کی ملک میں گئی، بازار کے بھاؤ سے جو قیمت اس کی ہے وہی مجرا ہوگی، بالائی خرچ محسوب نہ ہوں گے۔" (فتاوی رضویہ، ج 10، ص 69، 70، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3916

تاریخ اجراء: 17 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 14 جون 2025 ء