
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
زکوة کے فرض ہونے کے بعد اگر کوئی شخص زکوة کی رقم الگ کر دے، لیکن ابھی تک مستحق کو نہ دے، تو صرف رقم الگ کرنے سے زکاة ادا ہوجائے گی، یا پھر زکاة کی ادائیگی اُس وقت مکمل سمجھی جائے گی جب وہ رقم کسی مستحق کو واقعی دے دی جائے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
زکوۃ کی رقم کو صرف علیحدہ کرکے رکھ دینے سے زکوۃ ہرگز ادا نہیں ہوتی بلکہ جب مالِ زکوۃ کو شرعی فقیر کے قبضے میں دے کر اُسے مالک بنادیا جائے تو اس وقت شرعاً زکوۃ ادا ہوتی ہےاور آدمی اپنے فرض سے برئ الذمہ ہوتا ہے۔ حاشيۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے
"و لايخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء"
ترجمہ: اور زکوۃ کی رقم کو علیحدہ کردینے سے برئ الذمہ نہیں ہوگا، بلکہ فقیر کو ادا کرنے سے ہوگا۔(حاشيۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 715، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
نہرالفائق میں ہے
"لا یخرج بالعز ل عن العھدۃ بل لابدمن التصدق بہ حتی لوضاعت لم تسقط عنہ کذا فی الخانیۃ"
ترجمہ: مال زکوۃ کو علیحدہ کردینے سے برئ الذمہ نہ ہوگا بلکہ اس کو صدقہ کرنا ضروری ہے، یہاں تک کہ اگر (مال ِ زکوٰۃ علیحدہ کرکے رکھ دیا تھا،اور) وہ ضائع ہوگیاتو زکوٰۃ ساقط نہیں ہوگی، خانیہ میں بھی یونہی ہے۔ (النھر الفائق، جلد 1، صفحہ 419، دار الكتب العلمية، بیروت)
بہارشریعت میں ہے "مال کوبہ نیت زکوٰۃ علیحدہ کردینے سے برئ الذمہ نہ ہوگا، جب تک فقیروں کونہ دیدے، یہاں تک کہ اگر وہ جاتا رہا، توزکوٰۃ ساقط نہ ہوئی اور اگر مر گیا تو اس میں وراثت جاری ہوگی۔" (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 889، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3804
تاریخ اجراء: 07 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 05 مئی 2025 ء