دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
فی زمانہ کوئی اہلِ کتاب دین محمدی و قرآنِ پاک کو نہ مانے اور صرف حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ علی نبینا و علیہما الصلوۃ و السلام پر نازل شدہ کتاب (تورات یا انجیل) کو مانے، تو کیا وہ جنت میں جائے گا؟ کیا ان کو ان کے نیک اعمال کی جزا ملے گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اعلانِ نبوت کے بعد دین محمدی ہی قابل قبول ہے، اس کے علاوہ کوئی دین اللہ تعالی کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہے، اگر کوئی دین محمدی کے علاوہ کسی اور دین پر عمل پیرا رہتے ہوئے دنیا سے چلا جائے، تو وہ نجات پانے والوں میں شمار نہیں ہوگا، بلکہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں اس کا شمار ہوگا، جس کا واضح الفاظ میں قرآن پاک میں اعلان بھی کردیا گیا ہے، اور دین محمدی میں تمام آسمانی کتابوں بشمول قرآن مجید پر ایمان لانا ضروری ہے، کسی ایک کتاب کا انکار کفرہے، لہذا فی زمانہ اگر اہل کتاب (یہودی و عیسائی) دین محمدی اور قرآن پاک کونہ مانیں، تونہ ان کا کوئی عمل مقبول ہے اور نہ اس پر ان کو آخرت میں کوئی ثواب ملے گا اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے۔
قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے:
(وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ)
ترجمہ کنزالایمان: اور جو اسلام کے سوا کوئی دین چاہے گا وہ ہر گز اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں زیاں کاروں(نقصان اٹھانے والوں میں) سے ہے۔ (سورۃ آل عمران، پارہ03، آیت85)
سورہ بقرہ میں ارشاد خداوندی:
(قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰى وَ مَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْۚ- لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ٘- وَ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ(۱۳۶) فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْاۚ- وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍۚ-فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ(۱۳۷)
ترجمہ کنزالایمان: یوں کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو ہماری طرف اُترا اور جو اُتارا گیا ابراہیم و اسمٰعیل و اسحق و یعقوب اور ان کی اولاد پر اور جو عطا کیے گئے موسیٰ وعیسٰی اور جو عطا کیے گئے باقی انبیاء اپنے رب کے پاس سے ہم ان میں کسی پر ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے حضور گردن رکھے ہیں، پھر اگر وہ بھی یونہی ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پاگئے اور اگر منہ پھیریں تو وہ نری ضد میں ہیں، تو اے محبوب عنقریب اللہ ان کی طرف سے تمہیں کفایت کرے گا اور وہی ہے سنتا جانتا۔(سورۃ البقرۃ، پارہ01، آیات136، 137)
اس آیت مبارکہ میں یہود و نصاری ہی کو خطاب ہے، چنانچہ تفسیر جلالین میں ہے ({فإن آمنوا} أي اليهود والنصارى) (تفسیرجلالین، ص28، دارالحدیث، القاھرۃ)
جس سے واضح ہواکہ جس طرح مسلمانوں کا تمام آسمانی کتابوں بشمول قرآن پاک پرایمان ہے، اگر یہود و نصاری اس طرح ایمان لائیں، تب تووہ ہدایت پائیں گے، اور اگر کسی ایک کابھی انکار کریں گے، تو وہ تفریق کرنے والے ہوں گے اور ہدایت پر نہیں ہوں گے۔
اہلِ کتاب میں سے جس نے کفر کیا، اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ جہنم میں جائے گا، خدا تعالیٰ کا قرب و ولایت اور آخرت کی نجات اسے ہرگز نصیب نہیں ہوگی، چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ اُولٰٓىٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِیَّةِ﴾
ترجمہ کنز العرفان: بیشک اہلِ کتاب میں سے جو کافر ہوئے وہ اور مشرک سب جہنم کی آگ میں ہیں، ہمیشہ اس میں رہیں گے، وہی تمام مخلوق میں سب سے بدتر ہیں۔ (القرآن الکریم، پارہ30، سورۃ البینۃ، آیت: 6)
جو ایمان نہ لائے ان کے اچھے اعمال خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں باطل و مردود ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اُولٰٓىٕكَ لَمْ یُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا﴾
ترجمہ کنز العرفان: یہ لوگ ایمان لائے ہی نہیں ہیں تواللہ نے ان کے اعمال برباد کردئیے اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔ (القرآن الکریم، پارہ21، سورۃ الاحزاب، آیت: 19)
ایک اور مقام پر رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا﴾
ترجمہ کنز العرفان: اور انہوں نے جو کوئی عمل کیا ہوگا، ہم اس کی طرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح بنادیں گے، جو روشن دان کی دھوپ میں نظر آتے ہیں۔ (القرآن الکریم، پارہ19، سورۃ الفرقان، آیت: 23)
مذکورہ بالاآیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے ”آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار نے کفر کی حالت میں جو کوئی ظاہری اچھے عمل کیے ہوں گے، جیسے صدقہ، صلہ رحمی، مہمان نوازی اور یتیموں کی پرورش وغیرہ، اللہ تعالیٰ ان کی طرف قصد کرکے روشندان کی دھوپ میں نظر آنے والے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح انہیں بے وقعت بنادے گا، مراد یہ ہے کہ وہ اعمال باطل کردیئے جائیں گے، ان کا کچھ ثمرہ اور کوئی فائدہ نہ ہو گا، کیونکہ اعمال کی مقبولیت کے لئے ایمان شرط ہے اور وہ انہیں مُیَسَّر نہ تھا۔“ (صراط الجنان، جلد7، صفحہ14، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-4479
تاریخ اجراء:05جمادی الثانی1447ھ/27نومبر2025ء