
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-9104
تاریخ اجراء:18 ربیع الاول 1446ھ/23ستمبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ زید نے گفتگو کرتے ہوئے کہا اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے، لہٰذا وہ خنزیر اور دیگر جانوروں کا بھی خالق ہے، اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی رب تعالیٰ کو خنزیر كا رب کہہ کر پکارے، تو اس کے بارے میں حکمِ شرعی کیا ہے؟ کیا اس طرح اللہ تعالیٰ کو پکارنا کفر ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
رب العالمین جلّ و علا کی بارگاہِ اقدس کے ادب و احترام کا تقاضا یہ ہےکہ اُس کی طرف کسی بھی طرح کی برائی یا ناپسندیدہ چیز کی نسبت نہ کی جائے، اگرچہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے، تاہم اس کی طرف اچھی چیزوں کی نسبت کرنے کا حکم ہے،مثلاً فضل و احسان،نعمتِ الہٰی اور نیک بندوں،وغیرہ کی نسبت کی جائے، جیساکہ اسے ربّ الانبیاء، ربّ الصحابہ، ربّ العباد الصالحین، ربّ السماوات و الارض، ربّ المشرقین والمغربین کہا جائے۔ اس کے مقابلے میں بُری چیز کی نسبت کرنا ممنوع ہے، مثلاً: اسے ربّ القاذورات، رب القنادیر، ربُّ الخنازیر، یعنی گندگیوں، بندروں اور خنزیروں کا رب، وغیرہ کہنا کہ یہ اہل ایمان کے دلوں میں خدا کی موجود تعظیم کے منافی انداز ہے، تاہم اگر کسی نے کہہ دیا، تو اُس پر مطلقاًحکمِ کفر نہیں لگے گا، جب تک کہ معاذ اللہ علی التخصیص کوئی توہین وغیرہ کی نیت و صورت نہ پائی جائے۔
خود نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک ارشادات سے رہنمائی ملتی ہےکہ اللہ تعالیٰ کی طرف اچھوں کی نسبت کی جائے، چنانچہ ایک طویل حدیث پاک کا جز ہے، حضور عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہوئے عرض کی:” أنت رب الطيبين أنزل رحمة من رحمتك “ترجمہ: (اے اللہ!) تُو پاکیزہ لوگوں کا رب ہے، اپنی (وسیع) رحمتوں میں سے (خاص)رحمت نازل فرما۔(سنن أبي داود، باب الرقی، جلد 4، صفحہ 12، مطبوعہ المکتبۃ العصریہ، بیروت)
اس حدیث پاک کے تحت علامہ ابن رُسلان شہاب الدین مقدسی رملی رَحْمَۃُاللہِ تعالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 844 ھ / 1440ء) لکھتے ہیں :”(انت رب) بالرفع (الطيبين) أي: الطاهرين من المعاصي، و يحتمل المتكلمين بالكلم الطيب، و خصوا بالذكر؛ لشرفهم و فضلهم على غيرهم، و إن كان رب الطيبين و الخبيثين فلا ينسب إلى اللہ الا الطيب، كما لا يقال: رب الخنازير“ ترجمہ: یعنی تُو گناہوں سے پاک لوگوں کا رب ہے اور یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ( تُو) پاکیزہ کلام کرنے والوں کا رب ہے اور (حدیث پاک میں) بالتخصیص اچھوں اور پاکیزہ لوگوں کا ذکر ان کے شرف و فضل کی وجہ سے کیا گیا ،اگرچہ اللہ تعالیٰ اچھوں اور بُروں سب کا رب ہے، مگر اس کی طرف پاکیزہ چیز کی ہی نسبت کی جائے گی، جیساکہ (اللہ تعالیٰ کو) خنزیرکا رب نہیں کہا جا سکتا ہے۔(شرح سنن ابوداود لابن رُسلان، جلد 15، صفحہ 630، مطبوعہ مصر)
مشکوٰۃ المصابیح کی ایک حدیث پاک کے تحت علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 1014ھ / 1605ء) لکھتے ہیں:” و قيل: الشر لا يضاف إليك بحسن التأدب، و لذا لايقال: يا خالق الخنازير و إن خلقها، و هذا كقوله تعالى عن إبراهيم عليه السلام و إذا مرضت فهو يشفين مضيفا المرض إلى نفسه و الشفاء إلى ربه“ ترجمہ: کہا گیا کہ (اے اللہ!) تیری بارگاہ کے حسنِ ادب کے سبب تیری طرف برائی کی نسبت نہیں کی جائے گی، اسی وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا "اے خنزیر کے پیدا کرنے والے"، اگرچہ اسے بھی اللہ پاک نے ہی پیدا فرمایا ہے اور یہ اللہ پاک کے اس فرمان كی طرح ہے جو قرآنِ مجید میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلام کا موجود ہے کہ "جب میں بیمار ہوتا ہوں، تو وہ مجھے شفا دیتا ہے"، آپ عَلَیْہِ السَّلام نے مرض کی نسبت اپنی طرف اور شفا کی نسبت اپنے رب عزوجل کی طرف کی۔(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، جلد 2، صفحه 493، مطبوعه دار الکتب العلمیہ، بيروت)
اور یہ بات کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے، تو اس کی طرف نسبت بھی کر سکتے ہیں، اس کا جواب دیتے ہوئے امام ابو منصورمحمد بن محمد ماتریدی رَحْمَۃُاللہِ تعالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 333ھ)”تاويلات اهل السنة “میں، علامہ خطابی رَحْمَۃُ اللہِ تعالیٰ عَلَیْہِ(سال وفات: 388ھ)نے ” شأن الدعاء“ میں اور امام بیہقی رَحْمَۃُاللہِ تعالیٰ عَلَیْہِ نے ”القضا و القدر“ میں لکھا،و اللفظ للاخر:” يضاف معاظم الخليقة إليه عند الثناء والدعاء فيقال :رب السموات والأرضين،كما يقال:يا رب الأنبياء والمرسلين،ولا يحسن أن يقال:يا رب الكلاب ويا رب القردة و الخنازير ونحوها من سفل الحيوان و حشرات الأرض، وإن كانت إضافة جميع المكونات إليه من جهة خلقه لها والقدرة عليها شاملة لجميع أصنافها“ ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے وقت اس کی طرف اُس کی عظمت والی مخلوق کی نسبت کی جائے،لہٰذا” رب السموات والأرضين اور رب الانبياء والمرسلين“ کہا جائے اور کتوں،بندروں اور خنزیروں،سِفلی مخلوقات اورحشرات الارض وغیرہ کا رب نہ کہا جائے،اگرچہ تمام مخلوقات کی خلقت یعنی پیداکرنے کے لحاظ سے اسی کی طرف منسوب ہیں اور اس کی قدرت ہر قسم کی مخلوق کو شامل ہے۔(القضاء و القدر، صفحہ 276، مطبوعہ مكتبة العبيكان، الرياض)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟