
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کوئی انسان زہر وغیرہ سے خودکشی کرے، ایسا کرنا حرام ہے، لیکن معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس کی موت ایسے ہی لکھی تھی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
یاد رہے کہ نیکی اور برائی، ہر چیز کو اللہ پاک نے پیدا کیا اور اس کے اسباب پیدا فرمائے اور بندے کو عقل عطا فرمائی، جس کے ذریعے وہ کسی کام کو اختیار کرتا ہے اور جس چیز کو اس نے اختیار کرنا ہے، اللہ پاک نے اپنے علمِ ازلی سے اسے جانا اور لکھ دیا، یہ نہیں کہ جیسا اللہ پاک نے لکھا ہے، ویسا کرنے پر انسان مجبور ہے، بلکہ جیسا وہ کرنے والا تھا، اللہ پاک نے اسے جانا اور ویسا لکھ دیا۔ اسی وجہ سے کسی برائی یا غلط کام کا الزام بندے پر آتا ہے کہ اللہ پاک نے تمام اسباب دیے ہیں اور عقل دی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ برائی اختیار کرے، تو وہ خود قصور وار ہے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر کوئی خودکشی کرکے مرا ہے، تو اس کی موت ایسے ہی لکھی ہوئی تھی، کیونکہ اللہ پاک نے اس کے خودکشی کرنے کو پہلے ہی جان کر اس کے اس فعلِ بد کو لکھ دیا۔ لکھے جانے کی وجہ سے یہ مجبور نہیں ہوا، بلکہ اس نے جیسا کرنا تھا، ویسا لکھا گیا۔
شرح النووی میں ہے
و الله سبحانه و تعالى خالق الخير و الشر جميعا لا يكون شيء منهما إلا بمشيئته فهما مضافان إليه سبحانه و تعالى خلقا و إيجادا و إلى الفاعلين لهما من عباده فعلا و اكتسابا
ترجمہ: اللہ سبحانہ وتعالی خیر و شر دونوں کا خالق ہے، ان دونوں میں سے کوئی بھی اس کی مشیت کے بغیر نہیں ہوتا، پس ان دونوں کی اضافت اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف خلق اور ایجاد کے اعتبار سے کی جاتی ہے اور ان کے کرنے والوں کی طرف ، اس پر عمل کرنے اور اس کا کسب کرنے کے اعتبار سے کی جاتی ہے۔ (شرح النووی للمسلم، جلد 1، صفحہ 154، داراحیاء التراث العربی، بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے ”یہ شیطانی فعلوں کا دھوکا ہے کہ جیسا لکھ دیا ایسا ہمیں کرنا پڑتا ہے بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے اس نے اپنے علم سے جان کر وہی لکھا ہے۔۔۔ علم کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ عورت زنا کرنے والی تھی اس لیے اس کا یہ آئندہ حال اس نے اپنے علم غیب سے جان کر لکھ لیا اگر وہ حلال کرنے والی ہوتی تو اسے حلال والی ہی لکھا جاتا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 29، صفحہ 285، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں: ’’ وہی ہر شے کا خالق ہے،ذوات ہوں خواہ افعال، سب اسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔۔۔ہر بھلائی، بُرائی اُس نے اپنے علمِ اَزلی کے موافق مقدّر فرما دی ہے، جیسا ہونے والا تھا اورجو جیسا کرنے والا تھا، اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا ، تو یہ نہیں کہ جیسا اُس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اُس نے لکھ دیا۔ زید کے ذمّہ برائی لکھی اس لیے کہ زید برائی کرنے والا تھا، اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا وہ اُس کے لیے بھلائی لکھتا، تو اُس کے علم یا اُس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔‘‘ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 1، صفحہ 11 ، 12، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا عبد الرب شاکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4070
تاریخ اجراء: 03 صفر المظفر 1447ھ/ 29 جولائی 2025ء