نیک اور بد اعمال کس کے حکم سے رونما ہوتے ہیں؟

نیک اور بد اعمال کس کے حکم سے رونما ہوتے ہیں

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا انسان نیک اور بد دونوں اعمال اللہ تعالیٰ کے حکم سے کرتا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ہر عمل (نیک ہو یا بد) اللہ تعالیٰ کے ارادہ و مشیت اور اس کی قضا و قدر سے ہی وقوع پذیر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی ہر عمل کا خالق ہے۔ لیکن انسان کو بھی ایک نوع اختیار حاصل ہے کہ وہ نیک عمل کرے یا برا، اور اسی اختیار کی بنیاد پر انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اور اس پر جزا و سزا مرتب ہوگی، پھر انسان اپنے اختیار سے جو نیک و بد عمل کرنا چاہتا ہے اللہ تبارک وتعالی اپنی مشیت اورارادے سے اس کو پیدا فرما دیتا ہے۔ اور یہ بھی یادرہے کہ! اللہ تعالیٰ صرف نیک اعمال کا حکم دیتا ہے اور ان ہی سے راضی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ برے اعمال کا حکم نہیں دیتا اور نہ ان سے راضی ہوتا ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ﴾

ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو۔ (پارہ 23، سورۃ الصّٰٓفّٰت، آیت 96)

شرح السنۃ للبغوی میں ہے

"الإیمان بالقدر فرض لازم، وھو أن یعتقد أنّ اللہ تعالی خالقُ أعمال العباد، خیرھا و شرّھا، كتبها عليهم في اللوح المحفوظ قبل أن يخلقهم، قال الله سبحانه وتعالى:

{و الله خلقكم و ما تعملون} [الصافات: 96]،

و قال الله عز و جل:

{قل الله خالق كل شيء} [الرعد: 16]،

و قال عز وجل:

{إنا كل شيء خلقناه بقدر} [القمر: 49].

فالإيمان و الكفر، و الطاعة و المعصية، كلها بقضاء الله و قدره، و إرادته و مشيئته، غير أنه يرضى الإيمان و الطاعة، و وعد عليهما الثواب، و لا يرضى الكفر و المعصية، و أوعد عليهما العقاب"

ترجمہ: تقدیر پر ایمان فرض و لازم ہے، اور وہ یہ ہے کہ بندہ یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالی بندوں کے اعمال کا خالق ہے خواہ اعمالِ خیر ہوں یا شر، اللہ تعالی نے انھیں تخلیق فرمانے سے پہلے ہی لوحِ محفوظ میں لکھ دیا، اللہ سبحانہ و تعالی ارشاد فرماتا ہے: (ترجمۂ کنز الایمان) اور اللہ نے تمھیں پیدا کیا اور تمھارے اعمال کو۔ (سورۃ الصافات : 96) اور فرماتا ہے: (ترجمۂ کنز الایمان) تم فرماؤ اللہ ہر چیز کا بنانے والا ہے۔ (سورۃ الرعد: 16) اور فرماتا ہے: (ترجمۂ کنز الایمان) بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی۔ (سورۃ القمر: 49) پس ایمان و کفر، نیکی و برائی، سب کچھ اللہ تعالی کی قضا و قدرت اور اس کے ارادے و مشیت سے ہے، لیکن اللہ تعالی ایمان و طاعت پر راضی ہوتا ہے اور اس پر اس نے ثواب کا وعدہ فرمایا ہے، اور کفر و معصیت میں اس کی رضا شامل نہیں اور اس پر اللہ تعالی نے سزاکی وعید بیان فرمائی ہے۔ (شرح السنۃ، باب الإیمان بالقدر، ج 1، ص 142، المكتب الإسلامي، بيروت)

شرح فقہ اکبر میں ہے

”(و جمیع أفعال العباد من الحرکۃ و السکون) علی أی وجہ یکون من الکفر و الایمان و الطاعۃ و العصیان (کسبھم علی الحقیقۃ) باختیارھم فی فعلھم بحسب اختلاف اھوائہم و میل أنفسھم فلھا ما کسبت و علیھا ما اکتسبت (و اللہ تعالٰی خالقھا) أی موجد افعال العباد وفق ما أراد لقولہ تعالٰی :”و اللہ خلقکم وما تعملون“ أی و عملکم أو معمولکم (وھی) أی: أفعال العباد (کلها) أی جمیعھا من خیرھا و شرها وان کانت مکاسبھم (بمشیئتہ) أی بارادتہ (و علمہ)أی بتعلق علمہ( و قضائہ و قدرہ) أی علی وفق حکمہ و طبق قدر تقدیرہ، فھو مرید لما یسمیہ شراً من کفر و معصیۃ کما ھو مرید للخیر من ایمان و طاعۃ، ملتقطاً“

ترجمہ: اور بندے کے تمام افعال، خواہ حرکت ہوں یا سکون، چاہے وہ کسی بھی نوعیت کے ہوں، مثلاً کفر، ایمان، اطاعت یا نافرمانی، حقیقت میں یہ ان کا کسب (کمائی / اختیار کردہ عمل) ہیں، جو وہ اپنے اختیار سے، اپنی خواہشات اور نفسانی میلانات کے اختلاف کے مطابق کرتے ہیں۔ پس ہر جان کے لیے وہی ہے جو اس نے کمایا (نیکی) اور اسی پر وبال ہے جو اس نے کیا (برائی)۔ اور اللہ تعالیٰ ہی ان (افعال) کا خالق ہے، یعنی بندوں کے افعال کو اپنی مرضی کے مطابق وجود بخشنے والا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اللہ نے تمہیں پیدا کیا اور جو تم عمل کرتے ہو (اسے بھی)۔“ یعنی تمہارے عمل کو یا تمہارے کیے ہوئے کو (اللہ نے پیدا کیا) اور وہ (یعنی بندوں کے تمام افعال)، خواہ اچھے ہوں یا برے، اگرچہ وہ ان کا کسب (اختیار کردہ عمل) ہیں، (تاہم وہ سب) اللہ کی مشیئت (ارادہ / چاہت)، اس کے علم، اس کی قضاء (فیصلہ) اور اس کی قدر کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔ یعنی اس کے حکم (فیصلے) کے موافق اور اس کی تقدیر کے مطابق۔ پس وہ اس چیز کا بھی ارادہ کرنے والا ہے جسے شر کہا جاتا ہے، مثلاً کفر اور گناہ، جیسا کہ وہ خیر کا بھی ارادہ کرنے والا ہے، مثلاً ایمان اور اطاعت۔ (شرح فقہ الاکبر، ص 49 تا 52، مطبوعہ: لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3866

تاریخ اجراء: 26 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ / 24 مئی 2025 ء